Thursday, 3 August 2017

سیاہ پوش ساغر صدیقی اور خوش پوش حسن نثار

یہ ستر کی دہائی کے اوائل کا زمانہ تھا جب میں سنٹرل ماڈل ہائی سکول لوئر مال لاہور میں چھٹی جماعت کا طالب علم تھا۔ سکول کے مین گیٹ کے ساتھ ہی آج بھی امام بارگاہ گامے شاہ کے داخلے کا مرکزی دروازہ ہے۔ وہ زمانہ ہر طرح کی دہشت گردی سے کوسوں دور امن و امان کا دور تھا۔ سو آج کل کسی جنگی چھاؤنی کا منظر پیش کرنے والے اس گیٹ کے ساتھ  ان دنوں چرس بھرے سگریٹ اور کونڈی ڈنڈا لیے بھنگ گھوٹنے والے کچھ ملنگ لوگ آتے جاتے زائرین سے خیرات کی امید میں بیٹھے نظر آتے تھے۔ کبھی کبھارانہیں مست ملنگوں کے پاس خاک سے اٹی ہوئی زلفوں اور کٹے پھٹے احرام نما سیاہ لباس میں ایک مجذوب سا شخص بھی نظر آتا تھا۔ میں سکول سے واپس گھر جاتے ہوئے اکثر اس سیاہ پوش کے پاس کھڑا ہو کراس کی حرکات و سکنات کا طفلانہ سا جائزہ لیا کرتا تھا۔ اکثر اس کے پاس سگریٹ کی خالی ڈبیوں کے خولوں سے بھرا ہوا لفافہ پڑا رہتا تھا۔ وہ اس میں سے ایک ڈبی نکال کر اس کی تہیں کھولتا، اندر والے سفید حصے پر اشعار لکھتا اور گلے میں ڈالے ہوئے ایک میلے کچیلے تھیلے میں ڈال لیتا۔ سگریٹ کی ڈبیوں کے خولوں سے بنائے ہوئے وہ گتے ہی اس شخص کی نوٹ بک اور پرسنل ڈائری تھے۔ مجھے اس شخص کے پاس بیٹھے اور اس کے لکھے ہوئے وہ گتے دیکھنے کی بڑی خواہش تھی لیکن شاید اس کی ” خوفناک ” اور پراسرار حالت دیکھ کر زیادہ نزدیک جانے کا حوصلہ بھی نہیں پڑتا تھا۔ میں نہیں جانتا تھا کہ جس شخص کے اشعار میرے والد حضور شام کے وقت اپنی دوکان پر لگنے والی یاروں کی بیٹھک میں سنایا کرتے تھے، وہ انہی اشعار کا خالق ساغر صدیقی تھا۔

میں ساتویں جماعت میں پہنچا تو والد صاحب سے تعلیم کے ساتھ ساتھ  دوکان پر فوٹو فریمنگ کا ہنر سیکھنے کا حکم مل گیا۔ اور یوں میں نے پہلے ہی روز میں نے اسی مجذوب ساغر صدیقی کو اپنے والد کی سرنگ جیسی لمبی دوکان کے آخری گوشے میں ان کیلیے بچھائی چادر پر گاؤ تکیہ لیے، لبوں میں سگریٹ لگائے سگریٹ کی ڈبیوں کے خولوں کے گتوں پر اشعار لکھتے دیکھا۔ مجھے یاد ہے کہ جب میرے والد نے مجھے ان سے متعارف کراتے ہوئے کہا کہ ” ساغر جی یہ میرا بیٹا ہے، اسے بھی کچھ لکھنا شکھنا سکھائیں”، تو وہ میرے چہرے پر نظریں گھاڑے دیکھتے رہے اور مجھے مجال نہ ہوئی کہ میں ان کی طرف آنکھ بھر کے دیکھ  پاتا۔ انہوں نے میرے والد صاحب سے کہا، ” بابو جی ایک پرچی دو” ۔ میں ابھی یہ سوچ ہی رہا تھا کہ پرچی کا کیا مطلب ہو گا کہ میرے والد نے لوہے کے سیل بکس سے ایک روپے کا نوٹ نکالا اور ساغر صاحب کے ہاتھ میں تھما دیا۔ وہ اٹھے اور سامنے چائے کی دوکان سے ایک گلاس چائے، دو رس اور ایک کے ٹو سگریٹ کی ڈبی لا کر واپس تکیہ کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گئے۔ روپے کی پرچی سے بچنے والی چونی انہوں نے میری طرف بڑھائی اور اشارے سے جیب میں ڈالنے کو کہا۔ اس سے پہلے کہ میں انکار کرتا یا چونی کا وہ سکہ ان سے  لیتا میرے والد بولے” اوئے رکھ لا، درویشاں دا دتا ہویا برکت والا ہوندا اے”۔ ساغر صاحب نے سگریٹ کی ایک خالی ڈبی کے خول کو چیرا اور ڈبی کے الٹی طرف کےسفید حصے پر یہ دو اشعار لکھ کر میرے ہاتھ میں تھما دیے،  جو میرے لیے کسی بھی مکتبہ عشق سے حاصل کردہ پہلا سبق ٹھہرے۔
فیض عالم کی رہگزاروں پر ۔۔۔۔ نقشِ پائے رسول ملتے ہیں
تتلیاں رحمتوں کی رقصاں ہیں ۔۔۔۔ جذب و مستی کے پھول کھلتے ہیں

وہ اکثر شام کے بعد ہماری دوکان کے اسی گوشے میں سڑکوں سے اکٹھی کی گئیں سگریٹوں کی خالی ڈبیوں کے ساتھ آ بیٹھتے تھے۔ لوہاری دروازہ میں واقع ہماری دوکان کی اوپری منزل پر شہرہ آفاق خطاط تاج الدین زریں رقم اور خورشید گوہر رقم کی مشہور بیٹھک کاتباں تھی۔ جہاں سارا دن نامور شعرا اور ادبی ہستیوں کا آنا جانا لگا رہتا تھا۔ اکثر وہ شعرا حضرات بھی نیچے دوکان پر ساغر صاحب کے پاس یٹھے رہتے۔ میں گواہ ہوں کہ شباب کیرانوی جیسے کئی  فلمساز اور صہبا اکبر آبادی جیسے کئی شاعر ان سے گیت اور غزلیں لکھوا کر اپنے نام سے شائع کرتے تھے۔ یہ میری خوش قسمتی تھی کہ مجھے ڈیڑھ دو برس کے مختصر سے عرصہ کیلئے ان کی صحبت میسر رہی۔ میرے والد حضور بھی اردو ، پنجابی اور کشمیری زبان کے اعلی پائے کے شاعر تھے۔ لہذا ساغر صاحب جو بھی لکھ کر دیتے میں اسے سمجھنے کیلئے والد صاحب کا سر کھاتا رہتا۔ ساغر صاحب کی کبھی سمجھ آنے اور کبھی نہ آنے والے انداز میں بتائے گئے شاعری کے علم العروض کے کچھ نکات اور دو چار بحریں ہی سیکھ پایا تھا کہ وہ اس جہان فانی سے چل بسے۔ ان کی موت مجھ سمیت ان کے بہت سے پرستاروں کیلئے بڑی ہی تکلیف اور دکھ کا باعث تھی۔ ساغر صدیقی کے انتقال کے بعد ساغر میموریل سوسائٹی بنی اور میرے والد نے ان ادبی احباب کی درخواست پر ساغر سے جڑی کچھ یادیں، جن میں ان کے سیاہ احرام، رنگ برنگے کپڑوں کے ٹکروں سے سلی ہویی دو گودڑیاں، پیتل اور تانبے کی کچھ انگوٹھیاں اور نگینوں سے سجے پتھر کے چند کاسے ان کی خدمت میں پیش کر دیے۔

گزشتہ برس حسن نثار کے کالم میں ساغر صدیقی صاحب کا ذکر دیکھا۔ تو مجھے ساغر صاحب کی خدمت میں حاضر ہونے والے وہ نام نہاد شعرا  یاد آ گئے جو ساغر صاحب کو سگریٹ کی ڈبیاں اور چرس کی ڈلیاں دیکرغزلیں لکھوا کر اپنے نام سے شائع کروا کے عظیم شاعر کہلوائے۔ خود کو دنیائے صحافت کا عظیم صحافی سمجھنے والے صاحبِ میخانہ حسن نثار صاحب لکھتے ہیں کہ،

“۔۔۔۔۔۔ “عشروں  پہلے لاہور میں ایک بھوکا ننگا مجذوب شاعر کملی پہنے قریہ قریہ آوارہ پھرا کرتا تھا ۔ کسی نے روٹی دی… کھا لی، چرس دی…. پی لی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گالی دی…. لے لی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ غرضیکہ ہر اعتبار سے” واجب القتل” تھا ۔۔۔ لیکن فتوے سے اس لیے بچا رہا کہ ہر قسم کے سوداگروں کے لیے بے ضرر تھا۔ اور تو اور اپنے وقت کے مہان فلم پروڈیوسراس کے پاس آتے چرس کے ہیرے موتی پیش کرتے، اور اس سے لازوال نغمے بٹور کے لے جاتے۔ وہ گنہگار اس قدر معصوم تھا کے اپنے ہی لکھے ہوئے گیتوں سے سرشار ہوتے ہوئے بھی کبھی نہ جان پایا کہ یہ گیت اسی کے لکھے ہوئے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ اس  شاعر خانہ خراب کا نام تھا ساغر صدیقی ۔ کیا عجیب کامبینیشن ہے ایک طرف ساغر دوسری طرف صدیقی ۔ اسی ساغر کے اس شعر پرغور کریں  ” آؤ اک سجدہ کریں عالم مدہوشی میں ۔۔۔۔ لوگ کہتے ہیں کہ ساغر کو خدا یاد نہیں “۔

حسن نثار صاحب اگر اپنے ماضی پر نظر دوڑائیں تو شاید انہیں یاد آ جائے گا کہ وہ صرف دو عشرے پہلے حضور لنڈے کا کوٹ پہنے مفلر سے ناک صاف کیا کرتے تھے۔ کبھی آپ بھی حامد میر کے والد گرامی وارث میر صاحب کا بیگ تھامے ذاتی خدمتگار کی طرح پیچھے چلتے دکائی دیتے تھے۔ ساغر مفلوک الحالی کے جرم میں “واجب القتل” تھا، ہاتھ میں کاسہء فقر لئے درکوزہ گری کرتا رہا مگر وہ  سامراجی غلاموں کا غیرت فروش بھکاری نہیں بنا۔ ساغر صدیقی کے اعزاز میں ٹارگٹ کلر اور بھتہ خور مافیوں نے موسیقی کی شامیں منعقد نہیں کیں۔ ساغر ایک پراگندا طبع سیاہ پوش مجذوب ضرور تھا لیکن اس نے اٹالین سوٹ برانڈ خوش پوش مسخرے حسن نثار کی طرح قرآن و حدیث اور شان رسالت مآب کے حوالے سے کبھی گستاخانہ باتیں یا اسلامی اقدار و شعائر کے بارے ہرزہ سرائی کر کے لوگوں سے لعنتیں نہیں سمیٹیں۔ ساغر صدیقی نے اوروں سے ملی چرس اور چائے پی، مداحوں سے روٹی ضرور کھائی مگر حسن نثار کی طرح مجید نظامی جیسے معزز صحافی کو گالی دیکر خواجہ فرخ  سے سٹیج پر سرعام طمانچے نہیں کھائے۔  یہ بھی کسی لطیفے سے کم نہیں  کہ شاعری کے بنیادی اصولوں سے ناواقف شخص، علامہ اقبال کو شاعر مشرق کے نام سے پکارے جانے پر چاند پر تھوکتا اور ساغر صدیقی جیسے سخن ور کی فقیرانہ زندگی کا حوالہ دیکر عامیانہ انداز میں جغت بازی کر رہا ہے۔ حسن نثار صاحب لکھتے ہیں کہ ۔۔۔۔۔۔

  ۔“لوگ واقعی بڑے ظالم ہوتے ہیں کہ اپنے اپنے ظالموں کو کندھوں پہ اٹھائے پھرتے ہیں۔ اور روشنی تقسیم کرنے والوں کو اندھیروں کے سپرد کر دیتے ہیں۔ کہ یہی بد نصیب معاشروں کا المیہ ہوتا ہے۔ اپنے بہترین قسم کو لوگوں کو مختلف قسم کی موتوں کے گھاٹ اتار کر ان پر ماتم کرنے والے ظالم لوگ ۔ اسی ساغر صدیقی نے لکھا تھا۔۔ جس شہر میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی ۔۔۔۔ اس شہر کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے۔ لیکن ہمارے سلطان تو براہِ راست خود لوٹتے ہیں، سرکاری طور پر لوٹتے ہیں ۔۔ دن دیہاڑے لوٹتے ہیں “ ۔۔۔۔۔۔۔ مسٹر حسن نثار آپ عالمیت اور دانشوری کا دعوی تو کرتے ہیں لیکن آپ ساغر صدیقی کا یہ شہرہ آفاق شعر بھی درست نہیں لکھ سکے۔  شعر کا غلط لکھا جانا کوئی بڑی بات نہیں لیکن آپ کی طرف سے اکثر و بیشتر یا تو دوسروں کے اشعار غلط لکھے جاتے ہیں یا خود آپ کے اشعار بحر سے خارج اور بے وزن ہوتے ہیں۔ اور یہی آپ کے جاہل ہونے کی علامت ہے۔ یاد رہے کچھ لوگوں نے اس شعر کے دونوں مصرعوں میں “عہد” لکھا  ہے، لیکن “شہر” کا  ذکر کسی بھی دیوان، کلیات یا کتاب میں موجود ہی نہیں۔ میری تحقیق کے مطابق اصل شعر کچھ یوں ہے ۔۔۔۔جس دورمیں لٹ جائے فقیروں کی کمائی ۔۔۔۔ اس عہد کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے

اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں کہ آپ جیسا ڈبل فیس ہی ظالموں کو کندھوں پر اٹھانے کی بات کر رہا ہے۔ خواص و عوام گواہ ہیں کہ وہ کراچی کا ظالم بھتہ خور و سفاک دہشت گرد مافیہ ہو یا دین پر گستاخانہ حملے کرنے لوگ، ان کا پہلا اور کھلا حلیف حسن نثار ہوتا ہے۔ وہ آپ ہی ہیں جو کبھی ظالموں کے نظریات اپنے کاندھوں پر اٹھائے پھرتے ہیں اور کبھی خود ان کے کندھوں پر بیٹھے اپنی عقل  کل پر ماتم  کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ کچھ تعجب نہیں کہ آپ کو بے تحاشہ پی کر یہ سب کچھ لکھنے وقت ذرا برابر شرم محسوس نہیں ہوئی ہو گی۔ لیکن قارئین کے ذوق مطالعہ کیلئے اس شعر کا پس منظر لکھ رہا ہوں۔ ساغر صاحب نے ایوب دور کے اوائل میں ” کیا ہے صبر جو ہم نے، ہمیں ایوب ملا ” کے مرکزی مصرع کے ساتھ ایک نظم لکھی تھی۔ یہ نظم ایوب خان کی نظر سے گزری تو اس نے لاہور آمد کے موقع پر ساغر صدیقی سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ حساس اداروں اور افسر شاہی نے ساغر کی تلاش میں اندرون شہر کا رخ کیا تو اندرون لوہاری گیٹ میں مشہور حاجی نہاری والے کی دوکان کے سامنے پان فروش کے تھڑے پر بیٹھے ساغر صاحب ان کے ہتھے چڑھ گیے۔ اہلکاروں نے ساغر کو بتایا کہ صدر مملکت نے انہیں گورنر ہاؤس میں ملاقات کیلئے بلوایا تو ساغر صدیقی نے کھرا جواب دیا تھا کہ کہ ہم فقیروں کا بادشاہوں سے کوئی لینا دینا نہیں۔ صدر مجھے کیا دیں گے،صرف یہی دو چار سو روپے، مگر فقیروں کی قیمت اس سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ اہلکاروں کے مذید اسرار پر ساغر نے سڑک پر پڑی سگریٹ کی خالی ڈبی اٹھا کر کھولی اور اس کےاندر کے سفید حصے پر یہ شعر لکھا ۔ ۔ ۔ ہم سمجھتے ہیں ذوقِ سلطانی ۔۔۔۔ یہ کھلونوں سے بہل جاتا ہے

یہ شاعرانہ جواب صدر ایوب خان سے زیادہ گورنر نواب آف کالا باغ امیر محمد خان کو ناگوار گذرا تو۔ مگر انہوں نے اگلے روز جو ٹیم روانہ کی جو بصد کوش تمام ساغر کی بجائے ایک اور سگریٹ کی ڈبی پر لکھا ہوا وہ شعر ساتھ لے گئی جو آپ نے ہمیشہ کی طرح اپنے عالمانہ نشے میں غلط لکھ دیا ہے۔ یاد رکھیں کہ ساغر صاحب آپ جیسے ضمیر فروش اور زرد صحافت کے قلم کاروں کی طرح کبھی بھی کسی مسند نشین یا سامراجی گماشتوں کی قدم بوسی کیلئے محلات شاہی کے ضمیر فروش مہمان نہیں بنے۔ آپ جناب ساغر صدیقی کے حوالے سے یہ کالم لکھنے سے قبل آئینے میں اپنی صورتِ کردار دیکھ لیتے تو آپ کو یہ ضرور نظر آ جاتا کہ آپ یہودی غلامین کی یاترا کیلئے مشرف کی محافل موسیقی و مجرا، نائن زیرو کے گسٹاپو ہاؤس ہی نہیں اپنے نظریاتی بھائی پیر آف لندن شریف کی قدم بوسی کیلئے انگلستان اور یہودی آقاؤں کی دم بوسی کیلئے کینیڈا تک پہنچ جاتے ہیں۔ ساغر نے فقیری یا بھیک میں چرس کی ڈلیاں اور کالے لباس کی چادریں لیں مگر صد آفرین کہ اس غیرت مند مجذوب نے آپ جیسے غدارین امت کی طرح اپنے مغربی اور سامراجی آقاؤں کے سفارت خانوں سے کینالی کے اٹالین سوٹ اور ولائتی شراب کی پیٹیاں، محلات شاہی کی گداگری سے ایکڑوں کے پلاٹ اور سیاسی بلیک میلنگ سے کروڑوں ڈالروں کی بخششیں اکٹھی نہیں کیں۔ کچھ دوستوں کیلئے ساغر صدیقی بظاہر ایک نشئی اور متنازعہ وضع قطع و پراگندا طبع رکھنے والا شخص سہی، مگر میری نظر میں وہ ایک صاحب علم سخن ور، پیغمبرِ حق صلی اللہ علیہ وسلم کا عاشق، اکابرین ملت کا ادب کرنے والا مجذوب قلندر تھا۔ بحرحال حسن نثار جیسے احمق دین دشمن ” دانشور” کی طرح بندہء یروشلم، دہلی و جالندھر نہیں تھا۔ وہ سید علی ہجویری رحمۃاللہ علیہ کے مزار کے سامنے پائیلٹ ہوٹل کے فٹ پاتھ پر خون اگلتا ہوا اس جہان فانی سے رخصت ہوا۔ لیکن کون جانے کہ آپ ارب پتی خوش پوش نیویارک یا کندن کے کسی مہنگے ترین ہسپتال میں نشانہء قضا بنیں یا پھر اپنے آقا  شیرون اور انجہانی قادیانی خلیفوں کی طرح برس ہا برس بستر مرگ پر ایڑیاں رگڑتے رہیں۔ میں  دعا گو ہوں کہ اللہ آپ کو ہدایت دے اور آپ اسلامی اقدار اور نظریات حق کے بارے اول فول لکھنے  سے توبہ کر لیں۔ کاش آپ کبھی نصرت فتح علی کی آواز میں ساغرصدیقی کا یہ عاشقانہ کلام دل کے بند دروازے کھول کرسنیں تو  آپ نبی ء آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم  اور دین حق کے روشن نظریات کے بارے ہرزہ سرائی کرنے سے باز آ جائیں۔
بزم کونین سجانے کیلے آپ آئے ۔۔۔ شمعِ توحید جلانے کیلئے آپ آئے

میانی صاحب میں” لنگر ساغر” چلتا ہے

حریر : ریاض جاذب
ساغر صدیقی تقسیم کے بعد اکیلا پاکستان آگیا اس کا یہاں کوئی نہیں تھا لاہور کی سڑکیں اور ساغر لازم وملزوم تھے۔ جنوری 1974 میں ساغر پر فالج کا اٹیک ہوا، اور جولائی 1974 میں انتقال کرگئے۔ ساغر جس کا زمانے کوئی اپنا نہیں تھامرنے کے بعد خداترس لوگوں نے اس کو میانی صاحب قبرستان میں دفن کردیا۔ یزدانی جالندھری نے ان کی وفات پر قطع لکھا۔
ساغر نے رخت زیست جہاں سے اٹھا لیا
افسردہ اس کے غم میں ہیں یاران انجمن
ساغر صدیقی جس قبرستان میں دفن ہیں وہاں اپنے وقت کے بڑے بڑے نامور شاعر ادیب فن کار سیاست دان اداکار ، صنعت کار سرمایہ دار بھی دفن ہیں اپنے وقت کے مشہور لوگ جن کی ایک جھلک دیکھنے اور ملنے کے لیے مہینوں لوگ انتظار کرتے تھے وہ بھی اسی قبرستان میں سورہے ہیں ان میں کئی تو ساغر کے ہم عصر بھی تھے۔ مثال کے طور پر میڈم نوجہاں ، قتیل شفائی، احمد فراز، فیص احمد فیض، سنتوش کمار اور ان کے بھائی درپن شامل ہیں ان کی زندگی میں ساغر سڑکوں پر تلخیوں میں رہتا اور افسردگی و آوارگی کا نمونہ تھا بے خودی میں اس کو کھانے پینے اور پہننے تک کا ہوش نہ تھا ، یاردوست دور، دور رہتے کہیں وہ ان سے ”چونی نہ مانگ لیں” ساغر ہر کسی سے نہیں اپنی جان پہچان والوں سے بڑے سٹائل سے کہتے ”ایک چونی مل جائے گی” دن بھر میں یہ کئی چونیاں دس سے پندرہ روپے بن جاتے اور وہ اس سے اپنے لیے سامان پیدا یعنی خرید کرتے۔ بے خودی اور تلخیوں میں رہنے والے ساغر میانی صاحب میں بڑے خوش ہیں زمانے کی تلخیاں یہاں انہیں تنگ نہیں کرتی وہ کسی سے چونی نہیں مانگتا بلکہ روزانہ کئی ساغر اس کے لنگر خانہ سے کھاتے ہیں۔ ساغرمعاشرتی نامناسب ریوں سے نالاں تھا اور تبھی تو وہ اس کا اظہار کرگئے کہ
توہین ہے دروہش کا اس شہر میں جینا
ہوفاقہ کشی نام جہاں صبر ووفا کا
میانی صاحب میں دفن اپنے وقت کے بادشاہوں کی قبروں پر عام لوگ تو ایک طرف ان کے اپنے بھی نہیں آتے مگر ساغر جس سے لوگ دور بھاگتے تھے اس کی قبر پر ہجوم رہتا ہے ساغر جہاں دفن ہے اسی قبرستان میں اس کے نام کا ” ساغرلنگرخانہ بھی چلتا ہے اس لنگر خانے کے منتظمین کہتے ہیں کہ ساغرکا لنگرجاری وساری ہے۔ کئی لوگ اپنا نام تک نہیںبتاتے مگر لنگر خانہ کے لیے نذرانہ دے جاتے ہیں۔ افلاس میں مرنے والا ساغرجسے لوگ فقیر کہتے تھے مرنے کے بعد بادشاہ ساغر ہیں ساغر کا شعر ہے کہ
یاد رکھنا ہماری تربت کو
قرض ہے تم پہ چار پھولوں کا
میانی صاحب میں جاکر دیکھا جاسکتا ہے کہ وہاں ساغر کی قبر پر چار پھول نہیں بے شمار پھول ڈالے جاتے ہیں۔ جب جنرل ایوب خان جب اقتدار میں آئے تو ساغر صدیقی نے اپنی ایک نظم کے شعر میں لکھا
کیا ہے صبر جو ہم نے ہمیں ایوب ملا کسی نے یہ نظم ایوب خان تک پہنچا دی جب وہ لاہور آئے تو انہوں ساغر سے ملنے کی خواہیش کی تو کی ہر طرف پولیس والے دوڑ پڑے شام کو ایک پولیس والے کو ساغر ایک پان شاپ پر کھڑے ملے تو اس پولیس والے کی جان میں جان آئی اور اس نے ساغر سے مدعا بیان کیا کہ ان سے صدر ایوب خان ملنا چاہتے ہیں ساغر نے نہ ملنے کی رٹ چھوڑی اور پولیس والا اسی طرح اصرار کرتا رہا تو ساغر نے زمین پر پڑی ہوئی خالی سگریٹ کی خالی ڈبیاں اٹھائی اور اس پر لکھا کہ
ہم سمجھتے ہیں ذوق سلطانی
یہ کھلونوں سے بہل جاتا ہے
پولیس والے کو کاغذ کو ٹکڑا دیا کہا کہ جاؤ صدر صاحب کو دے دینا وہ سمجھ جائیں گے۔

Friday, 28 July 2017

قرض ہے یہ تم پہ چار پھولوں کا


قرض ہے یہ تم پہ چار پھولوں کا ۔۔ ساغر صدیقی ۔۔۔۔تحریر: فرزانہ ناز
*ساغر کی زندگی پہ کوئی تبصرے نہ کر*
*اک شمع جل رہی ہے سررہگزار زیست*
ساغر صدیقی1928ء میں انبالہ میں پیدا ہوئے وہ ماں کی مامتا اور باپ کی شفقت دونوں سے محروم رہے ۔کسی بہن بھائی کا بھی سہارا نہیں تھاساغر نے جس گھر میں ہوش سنبھالا اس گھر میں ساغر سے پہلے حاجی محمد حنیف اور حاجی محمد حسین نام کے دو بزرگ رہتے تھے اسی مکان میں لکڑی کے ایک پرانے صندوق میں پڑی کچھ کتابیں ساغر کی ساتھی بن گئیں ساغر نے حبیب حسن نامی ایک بزرگ سے تعلیم حاصل کی اور بچپن سے شعر کہنے کا شوق ہوا سات آٹھ برس کی عمر میں اس نے اردو زبان پر عبور حاصل کر لیا شروع میں ’’ناصر حجازی‘‘ کے نام سے شاعری کی لیکن ڈیڑھ دو ماہ بعد ہی یہ تخلص’’ساغر صدیقی‘‘ میں تبدیل ہو گیا جو آج تک موجود ہے ۔
درمیانہ قد، کشادہ پیشانی، ٹیڑھی آنکھیں مٹی سے اٹے بال، بڑھی ہوئی شیو، چپل سے محروم پاؤں ، سیاہ میلی کچیلی چادر میں لپٹا نحیف ونزار جسم لئے ساغر اپنے حال میں مست لاہور کی سڑکوں پر خاک میں خاک ہو تا رہا ساغر نے جتنی چرس پی تھی اور مارفیا کے انجکشن لئے وہ کسی بھی آدمی کو پاگل کرسکتا تھا لیکن وہ آخر دم تک خوبصورت شعر کہتا رہا ساغر ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا بلکہ تقسیم ہند سے پہلے وہ ایک خوش پوش نوجوان تھا اور ادبی محفلوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتا تھا ڈاکٹر تاثیر مرحوم اور شمس العلماء تاجور نجیب آبادی کے زیر سایہ اردو مجلس کے نام سے قائم ہونے والی بزم کے مشاعروں میں باقاعدگی سے شرکت کرتا تھا پھر تقسیم ہند کے بعد بھی ساغر کا یہ سفر اسی طرح جاری رہا وہ پتلون اور بوسکی کی شرٹ پہنتا تھا وہ بہت دلچسپ باتیں کرتا تھا اپنی شاعری اور ترنم سے مشاعرے لوٹ لیا کرتا تھا پھر اچانک ہی ساغر گردش میں آگیا تو بوسکی کی جگہ کھدر نے لے لی اور آخر کار ساغر نے یہ لباس فاخرہ بھی دنیا کے منہ پر دے مارا اور ایک کالی چادر اوڑھ لی اور یہی چادر تادم مرگ اس کے ساتھ رہی وہ اپنی ذات میں سمٹنے لگا اور لوگوں سے دور ہوتا چلا گیا وہ اپنے لئے فقیر کا لفظ استعمال کرنے لگا
*ہم فقیروں کی صورتوں پہ نہ جا*
*ہم کئی روپ دھار لیتے ہیں*
اس نے اپنی ذات کا سارا میل باہر انڈیل دیا اور اس کے اندر چراغاں ہوگیا آخر خاک میں لوٹتے اس فقیر نے 19جولائی 1974ء کو اس بے مہر زندگی سے منہ موڑ لیا اور ہمیشہ کے لئے سپرد خاک ہوگیا اس میں کوئی شک نہیں کہ ساغر ایک عظیم غزل گو شاعر تھا ممتاز شاعر ظہیر کاشمیری نے کہا تھا کہ ساغر بنیادی طور پر غزل کے میدان کا شہسوار تھا وہ جمال اور جلال دونوں کا شاعر تھا وہ مری ہوئی سماجی قوتوں کا نوحہ گر نہیں تھا نئی ابھرتی ہوئی طاقتوں کا نغمہ گر تھا مرزا ادیب ساغر کی شخصیت کے بارے میں لکھتے ہیں میں نے اور کسی نے بھی ساغر صدیقی کی زبان سے کوئی فحش بات نہیں سنی برابھلا کہنا وہ جانتا نہیں تھا ہر ایک سے طلب بھی کر لیتا تھا یہاں بھی اس کی مردانگی ملاحظہ فرمائیں چار آنے مانگنے پر آپ آٹھ آنے یا ایک روپیہ دے دیں تو وہ چار آنے لے کر باقی سکے واپس کر دیتا یہ اس دیوانے کا اصول تھا۔
ساغر کی شاعری میں زندگی اور زندگی کے تلخ رویے بہت زیادہ نمایاں ہیں ساغر نے جس طرح زندگی کو اور زندگی نے جس طرح ساغر کو برتا اس نے ساغر کے لہجے میں تلخی گھول دی مثال کے طور پر ۔
*خاک اڑاتی ہے تیری گلیوں میں*
*زندگی کا وقار دیکھا ہے*
*زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے*
*جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں*
*پھرتے ہیں لوگ چاک گریباں گلی گلی*
*مجروح زندگی کو لگائے ہوئے گلے*
معروف لکھاری یونس ادیب ساغر صدیقی کے دوست تھے مداح اور عاشق تھے ساغر کے کلام کو محفوظ کرنے اور شائع کروانے میں بھی یونس ادیب ہی کی کوششیں ہیں ورنہ ساغر کے بے نیازانہ رویے کی وجہ سے ایک بڑا نقصان تو یہ ہوا کہ اس کی شاعری کا ایک بڑا حصہ چرالیاگیا یا سستے داموں خرید لیاگیا لیکن یہ نقصان بھی ساغر کی عظمت کو کم نہیں کر سکا ہر سال ساغر صدیقی کی برسی پر ’’ساغر میلے‘‘ کا اہتمام بھی یونس ادیب کی کوششوں سے ہی ممکن ہوا گوالمنڈی کا خواجہ شفیع امرتسر کے وقت سے ساغر کا دوست اور مداح تھا نامور گلو کار مہدی حسن نے اسی سے ساغر کی غزل *”چراغ طور جلاؤ بڑا اندھیرا ہے”* لی اور گائی اس کی آواز سے یہ غزل بھارت والوں کے پاس چلی گئی ایک دن ساغر سوتر منڈی میں ایک پان کی دکان کے سامنے سے گزررہا تھا تو آل انڈیا ریڈیو کے کسی سٹیشن سے کوئی گائیک اس کی یہی غزل گارہا تھا ساغر رک گیا غزل کے اختتام پر اناؤنسر نے جب یہ کہا ’’ ابھی آپ پاک وہند کے مشہور شاعر ساغر صدیقی کی غزل سن رہے تھے’’ تو ساغر نے ہنس کر کہا‘‘ واہ ان کو معلوم ہی نہیں کہ ساغر کس حال میں زندہ ہے اچھا اللہ وارث ہے ‘‘ ساغر صدیقی جو اپنی زندگی میں ہی مرگیاتھا مرنے کے بعد اس کے کلام نے اسے ہمیشہ کے لئے زندہ وجاوید کر دیا نامور ادیبہ امرتا پریتم نے صحیح کہا ہے کہ ’’ایک شاعر کی حیثیت سے ساغر صدیقی کی زندگی اس دھرتی پر پاکبازی اور سچائیوں سے پیار کی بے داغ کہانی ہے اور ہم سب کا فرض ہے کہ انسانی احترام کی بحالی کی جدوجہد میں فکرو فن کے دیے روشن کرنے والے ساغر صدیقی ایسے شاعروں کو خلوص سے یاد کیا جائے۔
*یاد رکھنا ہماری تربت کو*
*قرض ہے تم پہ چار پھولوں کا*
ساغر لفظوں کے ساتھ ایک ماہر کھلاڑی کی طرح کھیلتا نظر آتا ہے اس کی شاعری چند روز کی شاعری نہیں بلکہ زمانوں کی شاعری ہے اس نے جو بات برسوں پہلے کہی تھی وہ دور حاضر پر بھی اسی طرح صادق آتی ہے ہمیں یقین ہے کہ یہ اشعار پڑھ کر آپ بھی ہم سے اتفاق کریں گے کہ ساغر صرف گزشتہ کل کا شاعر نہیں تھا بلکہ وہ آج کا اور آئندہ کا شاعر بھی ہے
*یقین کر کہ یہ کہنہ نظام بدلے گا*
*میرا شعور مزاج عوام بدلے گا*
*مفلسوں پر ہنس رہی ہے عظمتیں ابلیس کی*
*اور خدا کی رحمتیں منسوب زرداروں کے ساتھ*
*بے وجہ تو نہیں ہیں چمن کی تباہیاں*
*کچھ باغباں ہیں برق وشرر سے ملے ہوئے*
*یقیناً اب عوامی عدل کے زنجیر چھنکے گی*
*یہ بہتر ہے کہ مجرم خود ہی جرموں کی سزا چن لیں*
کیا ایسا نہیں لگتا کہ شاعر نے یہ اشعار حالات حاضرہ کے لئے کہے ہیں ؟ 19جولائی اس عظیم فقیر شاعر کی برسی کا دن تھاجو آیا اور گزر گیا۔ اسے زندگی نے جیتے جی کچھ نہ دیا لیکن وہ درویش مر کے زندہ ہو گیا ہماری دعا ہے اللہ تعالیٰ اسے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے آمین ۔ساغر صدیقی کے بارے میں جاننے کیلئے اس کا اپنا یہ شعر ہی کافی ہے
*ساقیا تیرے بادہ خانے میں*
*نام ساغر ہے مے کو ترسے ہیں*

Monday, 24 July 2017

یاد رکھنا ہماری تربت کو

1928میں امبالہ میں پیدا ہونے والا عظیم شاعر ’’محمد اختر‘‘ ۔۔۔جو گھر بار، اہل وعیال سے محروم عجب بے سروسامانی کی سی زندگی گزار گیا ۔نہ ماں کی آغوش نصیب ہوئی نہ باپ کی شفقت ۔کوئی ناز اٹھانے والی بہن تھی نہ ساتھ نبھانے والا بھائی اور نہ ہی پر پیچ زندگی کے آزار سہلانے کے لئے کوئی ہم سفر ،بھلا یہ بھی کیا زندگی تھی جس میں کسی رشتے کا بار تھا نہ اپکار۔سہارنپور اور انبالا کی گلیوں میں بچپن بیتایا تو زندگی کا ایک احسان ہوا کہ استاد حبیب حسن جیسی شخصیت کا ساتھ نصیب ہوا۔انہی کی بدولت طبیعت کو شاعرانہ مزاج اورشعر کہنے کا ہنر نصیب ہوا ۔کام کی تلاش میں سرگرداں اس خانہ بدوش صفت انسان نے امرتسر کا رخ کیا وہاں کچھ عرصہ ہال بازار کے کسی دکاندار کے ہاں لکڑی کی کنگھیاں بنا نے کا کام کیا ۔شعر کہنے کی ابتدا ء تو آٹھ سال کی عمر سے شروع ہوئی لیکن تقریباً 16سال کی عمر سے مشاعروں میں باقاعدہ شرکت کا آغاز کرتے ہوئے کم عمری میں جالندھر،لدھیانہ اور گورداسپور کے مشاعروں کو رونق بخشی۔حاضرین محفل اس دبلے ،پتلے ،جدید طرز کی پتلون اور بوسکی کی شاندار شرٹ میں ملبوس کرلی زلفوں والے لڑکے کی مترنم آواز کی چاشنی میں ڈوبے کلام کو سن کر مبہوت رہ جاتے ۔وہ جی بھر کے اسے داد دیتے اور اسکے حوصلے بڑھاتے۔جب شاعری کا آغاز کیا تو شروع شروع میں قلمی نام ’’ناصر مجازی ‘‘رکھا۔1947میں وہ 19برس کی عمر میں پاکستان ہجرت کر آیا۔حکومت اس زمانے میں ہجرت کرنے والے بے گھر لوگوں کو معمولی ٹھکانے سونپا کرتی تھی۔اس خوددار اورانا پرست انسان نے حکومت کی دی امداد قبول کرنے کی بجائے کرائے کے ٹھکانے میں رہنے کو ترجیح دی ۔سستے ہوٹل کے معمولی کمرے کا کرایہ اکثر اوقات اپنی شاعری کو اونے پونے داموں بییچ کر بھی پورا نہ کر پاتا۔اس عظیم شاعر کو بعد ازاں دنیا ’’ساغر صدیقی‘‘ کے قلمی نام سے سے جاننے لگی ۔ جو دنیائے ادب کا ایسا چمکتادمکتا ستارہ بنا کہ جس کی لو کے آگے بہت سوں کا نام اور کام دھندلا گیا ۔ساغر نے لاہور کی فلمی دنیا کو بھی اپنا فن عنایت کیا جو بہت سے انمٹ اور جاوداں نغمات میں اک طویل مدت تک ڈھلتا رہا۔ان کے دوست احباب میں امین گیلانی ،زہیر کاشمیری ،احمد راہی ،ساحر لدھیانوی ،شاد ،نریش کمار،لطیف گورداسپوری وغیرہ شامل تھے جن کا ساغر بے حد ادب و احترام کیا کرتے ۔ہفت روزہ تصویر سمیت کئی روزناموں اور ہفتہ وار پرچوں سے منسلک رہے۔1947 سے 1952تک کا دور ساغر کا سنہرا دور تھا،لیکن 1952میں کچھ بد اعمال دوست احباب نے پہلے مارفیا،بھنگ اور پھر چرس افیون کا عادی بنا ڈالا۔یہ اس کی بدنصیبی اور بد بختی ہی رہی کہ جلد ہی حالات پلٹا کھا گئے ۔جو ہفت روزہ ہاتھ میں تھا وسائل کی کمی اور دوستوں کے عدم تعاون کی وجہ سے اسے سواپانچ روپے میں فروخت کرنا پڑگیا۔کامیابی سے شروع کئے گے سفرکو اچانک ایک غمگین موڑ ملا جس نے ساغر صدیقی کے حوصلوں کو پستی کی طرف دھکیل دیا یا شاید ان کے ٹوٹنے کا سبب برے وقتوں میں دوست احباب کا سنگدلانہ اور بے درد رویہ رہا ہو کیونکہ جس انسان کے پاس گھر بار اور اپنوں کے التفات نہ ہوں اس کی تمام تر امیدوں اور توقعات کا مرکز اس کے دوست احباب ہی ہوا کرتے ہیں جو اکثر اس وقت ساتھ چھوڑ دیتے ہیں جب ہمیں ان کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔دوست احباب کی کم ظرفی کی مثال اس سے بڑھ کر کیا ہو گی کہ چرس کی پڑیا اور مارفیا کے ٹیکے کے عوض وہ ان سے ان کی متاع حیات بصورت غزل یا گیت لے جایا کرتے اور کمال بے ڈھٹائی سے اپنے نام سے چھپوالیا کرتے ۔کہا جاتا ہے کہ ساغر نے حفیظ جالندھری سے پہلے پاکستان کا قومی ترانہ لکھا۔یہ گیت کشمیر کی سر سبز وادیوں میں فلمایا گیا ساغر نے اسے اپنی ہی آواز میں دی اس کے آغاز میں بول کچھ یوں تھے ’’سلام اے قائد اعظم۔۔‘‘حکومت پاکستان نے اس ترانے کو منظور نہیں کیا۔کتنی عجیب سی بات ہے کہ وہ شخص جسے اس ملک نے محض رسوائی اور دربد ری، اپنی بے حسی اور بے قدری کی تھالی میں دھر کردی اور وہ بھی ایک خیرات سمجھ کر۔ جس شخص نے اس ملک میں پلنے والی اقرباء پروری ،کرپشن اور استحصالی نظام کے بھیانک روپ سے بددل ہوکر اپنے اندرون ا ور بیرون کو گھائل کر ڈالا کبھی وہ بھی اس وطن کے عشق میں مبتلا تھا ۔وہ پرُ امید تھا،پرُ جوش تھا۔لیکن کاش وہ حد سے زیادہ حساس نہ ہوتا۔کاش اس نے صرف اپنے ہی بارے سوچا ہوتا تو کبھی مطلب پرستوں اور مفاد پرستوں کے ہاتھوں زخم نہ اٹھاتا۔ساغر کی زندگی میں ہی مہدی حسن نے ان کی ایک غزل
’’چراغ تو جلاؤ بڑا اندھیرا ہے۔۔ ‘‘
گائی جسے بہت پزیرائی ملی۔ایوب خان نے ان کی شاعری سے متاثر ہو کر انہیں ملاقات کے لئے بلاوا بھیجا لیکن مگر ان کی انا نے گوارا نہ کیا کہ انہیں حکومتی امداد دی جائے سو اس بلاوے کو ٹھکراتے ہوئے جوابی پیغام میں فقط یہ شعر بھجوادیا ’’ہم سمجھتے ہیں ذوق سلطانی کھلونوں سے بہل جایا کرتے ہیں ‘‘ میر تقی میر کے بعد ساغر صدیقی کو درد کا شاعر مانا جاتا ہے۔ درد نہ صرف اس کے قلبی اظہار کا ذریعہ بنا بلکہ اس کا اوڑھنا بچھونا بھی درد ہی تھا۔اسی درد نے اسے دنیا جہاں سے بیگانہ کر دیا: ’’اگرچہ ہم جا رہے ہیں محفل سے نالہ دل فگار بن کر مگر یقیں ہے کہ لوٹ آئیں گے نغمۂ نو بہار بن کر دیارِ پیر مغاں میں آکر یہ اک حقیقت کھلی ہے ساغر خدا کی بستی کے رہنے والے تو لُوٹ لیتے ہیں یار بن کر ‘‘ لوحِ جنوں،شیشۂ دل،غم بہار،شبِ آگاہی،مقتل گل،ان کے کلام کی کتابیں اور غزلیات کا مجموعہ ’’کلیات ساغر‘‘ان کے باطن کا وہ نچوڑ ہے جس کا ترنم اور نغمگی ہمیشہ ترو تازہ رہے گی۔اس کے علاوہ کلام باہو کا اردو ترجمہ اور سوہنی مہینوال کا وہ ترجمہ بھی جو پورے شعری مجموعے کی شکل میں محفوظ نہ رہ سکا۔ ساغر ایک سچا شاعر تھا۔اسکی شاعری درد اور مفلسی کی تصویر تھی ۔اسے اسکی معاشی کسمپرسی سے ذیادہ ادبی اجارہ داری کی ستم ظریفیوں نے رگیدہ۔بے درد زمانے کے سفاک رویے اس کے احساسات اور جذبات کو مجروح کرتے رہے۔وہ غم کو پینے کا عادی ہو گیا تو اس غم کو سہنے کا درماں مصنوعی نشے سے کرنے لگا اوراپنے زخموں کو سہلانے لگا ۔ اے دل بے قرار چپ ہو جا جا چکی ہے بہار چپ ہو جا اب نہ آئیں گے روٹھنے والے داد اشک بار چپ ہو جا لوگ اسے طعن و تشنیع کا نشانہ بناتے اور کہتے ’’ساغر تو نے پی رکھی ہے ‘‘ اور وہ مسکراتا اور کہتا ’’ میں تلخی حیات سے گھبرا کے پی گیا غم کی سیاہ رات سے گھبرا کے پی گیا دنیائے حادثات ہے اک درد ناک گیت دنیا کے حادثات سے گھبرا کے پی گیا ۔‘‘ لوگ کہتے ہیں کہ ساغر ایک دیوانہ تھا لیکن اگر حال کی دیوانگی باطن کی بیداری ہوجائے تو جذب و سرور کی وہ کیفیت طاری ہو جاتی ہے جس کی واردات قلبی سے ساغر گزر رہا تھا۔وہ دنیا کے لئے مجذوب تھا جسے وقت اور زمانہ اپنے قدموں تلے روند رہا تھا جب کہ عین انہی لمحوں میں ساغر اس دنیا اور اس کی آلائشی خرافات کو اپنے قدموں تلے روند رہا تھا ۔وہ ننگے پاؤں،شانوں پہ کالی چادر اوڑھے ،مٹی سے اٹے ملگجے بالوں اور دھول سے لتھڑے وجود کو لئے لاہور کی سرکلر روڑ،انارکلی ،اخبار مارکیٹ ،شاہ عالمی روڑ،ایبک روڑ اور داتا دربار کے علاقوں میں عجب بے سروسامانی کے عالم میں گھومتا پایا جاتا۔اس نے فلمی گانوں سے کمائی گئی آمدنی خود سے بھی ذیادہ ضرورت مندوں میں تقسیم کر دی تھی اور خود کئی برس بھیک کی روٹی کھا کے گزار دئے ۔وہ اکثر رات کی تاریکی میں موم بتی کی لو میں، فٹ پاتھ پہ بیٹھا اپنا کلام لکھا کرتا کبھی اسے پڑھ کے لوگوں کو سناتا کبھی اسے اسی موم بتی کی لو میں جلا کر خاکستر کر دیتا۔
’’روداد محبت کیا کہیے کچھ یاد رہی کچھ بھول گئے
دو دن کی مسرت کیا کہیے کچھ یاد رہی کچھ بھول گئے
کچھ حال کے اندھے ساتھی تھے کچھ ماضی کے عیار سجن
احباب کی چاہت کیا کہئیے کچھ یاد رہی کچھ بھول گئے
اب اپنی حقیقت بھی ساغر بے ربط کہانی لگتی ہے
دنیا کی حقیقت کیا کہئے کچھ یاد رہی کچھ بھول گئے‘‘
اس کا اب کوئی وفادار نہ رہا تھا نہ یہ وقت نہ زمانہ ہاں ایک سگ ضرور اسکا وفادار تھا جو اصحاب کہف کے سگ کی طرح اسکے ساتھ ہی گہری نیند سوجانے کو بھی تیار تھا۔وہ تقریباً چھ سالوں تک اس کے سنگ رہا۔ساغر دکانداروں سے ملی روٹی سے ایک بڑا حصہ اس وفادار ساتھی کو سونپ دیتا۔۔جب کبھی بے سروسامانی کے عالم میں فضا یخ بستہ ہوجاتی تو اپنے وجود کو برفانی ہوا کی سل میں مدفن ہونے سے بچانے کے لئے وہ ایک بجھے ہوئے تندور کے قریب لیٹ کے رات بیتا لیتا۔ایک مہربان دوست عبدالرحمان نے ایک عدد لحاف عنایت فرما تودیا لیکن یونہی رستے پہ چلتے چلتے اک ٹھٹھرتے فقیر کو جو دیکھا تو اسے خود سے ذیادہ مستحق جان کے لحاف اس کے حوالے کر دیا اور خود کو اک بار پھر سرد ہواؤں کے تھپیڑوں کے سپرد کردیا۔ ایسا درویش اور مجذوب کہ جسے سب کے حال کی فکر تھی ہاں اگر خبر نہ تھی تو اپنے ہی حال کی نہ تھی۔ زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں آؤ اک سجدہ کریں عالمِ مدہوشی میں لوگ کہتے ہیں کہ ساغر کو خدا یاد نہیں اس کے آخری ایام بہت تکلیف میں گزرے جب وہ بیماری سے خون تھوکنے لگا تھا ۔بڑی ہی درد بھری زندگی تھی جس کی بظاہر دنیا والوں کے لئے کریہہ یادیں چھوڑ کے وہ سن 1974کے ایک دن 19جولائی کی تاریک صبح کوملک عدم سدھار گیا ۔اس مجذوب کا بے جان وجود مال روڈ کی الفلاح بلڈنگ کے سامنے فٹ پاتھ پہ پایا گیا ۔کہا جاتا ہے کہ ساغر کا وجود بیماری سے نہیں بلکہ رات بھر پڑنے والی کہر سے اکڑ گیا تھا۔وہ کریہہ وجود تو مٹی کے حوالے ہو گیا لیکن اس کی شاعری امر ہو گئی۔کہتے ہیں اس کے اولین ساتھی نے اس جگہ کو نہ چھوڑا جہاں ساغر کا بے روح جسم پایا گیا تھا اور ٹھیک ایک سال بعد اسی جگہ لوگوں نے اسکا بے جان وجود بھی دیکھا۔میانی صاحب کے قبرستان میں ساغرکے مزار کی ’’ لوح تربت ‘‘پہ لکھا گیا اس کا اپنا شعر اس کی دنیا سے محض اتنی سی التفات کا تقاضہ کرتا دکھائی دیتا ہے
یاد رکھنا ہماری تربت کو
قرض ہے تم پہ چار پھولوں کا

Friday, 21 July 2017

ساغر صدیقی کے آخری دن لاہور میں

ساغر صدیقی کے آخری دن لاہور میں


لاہور میں قیامت کی گرمی پڑ رہی تھی۔ ی جولائی کے دوسر ے ہفتے کی بات ہے۔ ا دوپہر میں ریڈیو اسٹیشن سے نکل کر لوہاری درواز ے پہنچا تو مسلم مسجد کے مینار کے نیچے مجھے ساغر کی ایک جھلک دکھائی دی۔ اُس نے اپنے نحیف و نزار جسم سے سیاہ چادر اُتار دی تھی اور ڈھیلا ڈھالا سفید کرتا پہنے چھڑی کے سہار ے کھڑا تھا۔
میں ٹریفک چیر کر اُس کی طرف بڑھا تو اُس نے دھونکی کی طرح چلتے ہوئے سانس کو روک کر مجھے دیکھا اور کہا " میں تمہں ہی یاد کر رہا تھا کہ تم بھی نظارا کر لیتے اور ہاں تم ضرور پوچھو گے کہ فقیر نے سیاہ چادر کیوں اُتار دی ہے اور سفید کُرتا کیوں پہن لیا ہے؟" اور چھڑی دکھا کر بولا۔ " سب کچھ بتاؤں گا پہلے میری صلیب دیکھو۔" یہ کہتے ہوئے پھر اُس کا دم اُکھڑنے لگا اور اُس نے کھانس کر بلغم تھوکی تو دم لے کر کفن نما سفید کُرتے کو چھو کر بولا۔
"مقتل کی طرف جانے کی گھڑیاں آ گئی ہیں اور میں نے کفنی پہن لی ہے۔" میں نے جلدی سے پوچھا " لیکن تم ہو کہاں؟" اُس نے اپنی بے نور ہوتی آنکھوں سے عینک اُتار کر پر ے پھینک دی اور بولا " اب کچھ دیکھنے کو دل نہیں چاہتا اور جا بھی کہاں سکتا ہوں۔ صرف چولا بدلنے گیا تھا۔ اب تو میں نے سب تیاریاں مکمل کر لی ہیں۔"
ٹریفک کے شور میں ساغر کی آواز ڈوب ڈوب جاتی تھی۔ پھر وہ میر ے آخری سوال کا جواب دیے بغیر لوہاری کے اندر اپنے لرزیدہ جسم کو کھینچ کر لے گیا۔
رات کو مجھے دیر تک نیند نہ آئی اور مجھے یوں محسوس ہوتا رہا جیسے روشنی اپنے آپ کو سمیٹ رہی ہے۔ اُنہی دنوں طالب چشتی روتا ہوا ریڈیو اسٹیشن میں داخل ہوا اور اُس نے گلوگیر آواز میں بتایا " بابا جی خون تھوک رہے ہیں اور پان گلی کے باہر منیر چھولیاں والے کے تھڑ ے کے نیچے پڑ ے ہیں۔
میں کام جاری نہ رکھ سکا اور طالب کے ساتھ لوہاری پہنچا تو ساغر وہاں نہیں تھا۔ ہم نے انار کلی، ایبک روڈ، آبکاری روڈ، پیسہ اخبار، شاہ عالمی اور سوتر منڈی میں ہر جگہ اُسے تلاش کیا لیکن ساغر کا کوئی نشان نہ ملا۔
دوسر ے دن میں ریڈیو اسٹیشن جانے کی بجائے صبح ہی صبح لوہاری چلا گیا اور اُسے مکتبہ جدید کے سامنے دیکھ کر میرا دم گھٹنے لگا۔ راہگیر اُسے دیکھ کر آگے بڑھ جاتے تھے اور دکان دار اپنے اپنے گاہکوں میں مصروف تھے۔ حالانکہ سارا شہر اُسے خون تھوکتے ہوئے اس طرح دیکھ رہا تھا۔ جیسے لوگ روسن اکھاڑ ے میں جمع ہوں اور خونیں منظر دیکھ کر تالیاں بجا رہے ہوں۔ جس میں ساغر کفن پہنے بوجھل سانسوں کے ساتھ نیم جان ہو کر اپنے آپ کو گھسیٹ رہا تھا۔ اُس کے کفن پر خون کے دھبے اس طرح جگمگا رہے تھے جیسے خنجر بکف جلاد اُس پر ٹوٹ پڑ ے ہوں۔
اُس نے بند ہوتی ہوئی آواز میں کچھ کہنا چاہا تو اُس کے منہ سے خون نکل کر اُس کے ہونٹوں پر پھیل گیا، اُس نے سفید آستین سے پونچھ کر دوبارا کچھ کہنے کی آرزو کی تو خون کی لکیریں اُس کی کفنی پر بہنے لگیں۔ اپنے ہی خون میں شرابور ساغر صدیقی اس ہنستے بستے شہر میں کئی دنوں تک مقتل کا نظارا بنا رہا، اُس وقت ملک کی سب سے بڑی ادبی تنظیم رائٹرز گلڈ کے انتخابات پر پانی کی طرح روپیہ بہایا جا رہا تھا اور بہت سار ے خوش حال ادیب اور شاعر رائٹرز گلڈ سے معذوروں کا وظیفہ بھی پا رہے تھےلیکن ساغر جس نے عمر بھر صلہ و ستائش سے بے نیاز ہو کر حُسن و پیار اور رحم کے گیت تراشے تھے، اپنے خون آلود کُرتے میں لپٹا تیسر ے دن بے کسی کے ساتھ مر گیا تھا۔
اُسے کس نے کفن پہنایا اور کون لوگ دفن کرنے قبرستان گئے۔ یہ شکستِ ساغر کی آخری گمشدہ کڑی ہے اور جس طرح کسی کو یہ معلوم نہیں کہ اُس نے کس ماں کی گود میں آنکھ کھولی؟ کس باپ کی شفقت سے محروم ہوا؟ اور کس بھائی نے اُسے پیار سے پکارا؟ اس طرح یہ بھی معلوم نہیں کہ اُسے قبر میں اُتارنے والے کون تھے؟
ساغر کو قبرستان میانی صاحب میں دفن ہوئے نو سال بیت گئے ہیں اور میں اُس کی زندگی کے بکھر ے بکھر ے مناظر ترتیب دیتے ہوئے اُس کی آخری آرام گاہ پر لگا ہوا ایک کتبہ پڑھ رہا ہوں۔ جس پر یہ الفاظ کنندہ ہیں۔
" عاشق کو سجدہ کرنے کی مستی میں اس بات سے کوئی سروکار نہیں ہوتا کہ اُس کی پگڑی کہاں گری ہے اور اُس کا سر محبوب کے قدموں پر کس انداز سے گرتا ہے۔"
لیکن اُس کے کسی مداح نے اُس کے کتبے پر یہ الفاظ لکھوائے ہوئے ہیں " ساغر کا قاتل یہ معاشرہ ہے" اور نیچے ساغر کا یہ شعر درج ہے۔

سُنا ہے اب تلک واں سونے والے چونک اُٹھتے ہیں

صدا دیتے ہوئے جن راستوں سے ہم گزر آئے

دوستو! ساغر صدیقی کی فنی عبادتوں اور اُس کی پاکیزہ شخصیت کے خدوخال لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے۔ اُس کی زندگی میں جھانک کر دیکھنا میری ہمتوں سے باہر ہے۔ شکستِ ساغر کے عنوان سے اُس کی یادوں کو ترتیب دینا میری ایسی آرزو تھی جسے میں نے برسوں سے اپنے دل میں سنبھال سنبھال رکھا ہوا تھا۔
اور جب بھی میں اُس کے بار ے میں لکھنے کے لیے قلم اُٹھاتا ہوں تو موتیوں کے پھولوں کی خشبو میر ے احساس میں پھیل جاتی ہے اور پھر اچانک ہی موتیوں کے پھول خون کے دھبوں میں بدل جاتے ہیں۔
قبرستان میانی صاحب کے قریب سے گزرتے ہوئے مجھے اکثر وہ ساغر صدیقی یاد آ جاتا ہے جو برسوں پہلے مجھے اس شہر میں ملا تھا۔ گھنگھریالے بالوں، خوبصورت آنکھوں اور خوبصورت چہر ے والا ساغر صدیقی اور پھر ایک تباہ حال شاعر! جس کی میت پر کوئی اپنا آنسو بہانے والا نہ تھا۔ زندگی کی المناکیوں کا ایک ایسا عنوان بن گیا جس کو لکھنے کے لیے لہو کے چھینٹے اُڑانے پڑتے ہیں۔
شکستِ ساغر ایک فرد کا المیہ نہیں اس پور ے سماج کا المیہ ہے جس سے بے رحم سرمایہ دارانہ نظام نے احساسِ درد مندی چھین لیا ہوا ہے۔ اور افراد کو ایک دوسر ے سے اس طرح الگ کر کے رکھ دیا ہے کہ وہ بدترین حالتِ بیگانگیِ ذات میں مقید ہو کر رہ گئے ہیں۔
ساغر نے تمام زندگی دار و رسن پر گزاری۔ لیکن مرنے کے بعد اُس سے زندگی کوئی بھی نہ چھین سکا۔ اُس نے تو اپنے لہو سے فکر و فن کا سنگھار کیا تھا۔ فاقوں کی سیاہ راتوں اور بے چارگی میں ڈوبی ہوئی صبحوں میں بھی اُس نے سچے خیالوں اور پُر نور جذبوں کے فانوس روشن رکھے۔
اُس نے بے گھروں کے دکھ میں اپنا گھر بنانے کے خیال کو جھٹک دیا۔ ننگے زخمی پیروں کو دیکھ کر خود تپتی ہوئی سڑکوں پر ننگے پاؤں جلتا رہا۔ برہنہ جسموں کی بے وقعتی پر سیاہ پوشی کرنے والے کے حوصلے کا مقابلہ کون کر سکتا ہے؟ اور بھوکے معدوں کے غم میں فاقوں کے دوزخ میں جلنا اُسی کا کمال تھا۔
یہ وہ انسانی کمال ہے جو صرف آج کے بے برکت دور میں ساغر کی زندگی میں نظر آتا ہے اور یہی وہ حقیقت ہے جو صدیوں تک اُس سے اہلِ درد کی محبتوں کو زندہ رکھے گا
۔یونس ادیب صاحب کی کتاب " شکستِ ساغر" سے اقتباس۔ساغر صدیقی
ہے دعا یاد مگر حرفِ دعا یاد نہیں
ہے دعا یاد مگر حرفِ دعا یاد نہیں
میرے نغمات کو اندازِ نوا یاد نہیں
ہم نے جن کے لیے راہوں میں بچھایا تھا لہو
ہم سے کہتے ہیں وہی عہدِ وفا یاد نہیں
زندگی جبرِ مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانے کس جرم کی پائی ہے سزا، یاد نہیں
میں نے پلکوں سے درِ یار پہ دستک دی ہے
میں وہ سائل ہوں جسے کوئی صدا یاد نہیں
کیسے بھر آئیں سرِ شام کسی کی آنکھیں
کیسے تھرائی ستاروں کی ضیا یاد نہیں
صرف دھندلائے ستاروں کی چمک دیکھی ہے
کب ہوا کون ہوا مجھ سے خفا یاد نہیں
آؤ اک سجدہ کریں عالمِ مدہوشی میں
لوگ کہتے ہیں کہ ساغر کو خدا یاد نہیں

ساغر صدیقی اردو شاعری کا ایک معتبر اور قدآور نام

 ساغر صدیقی اردو شاعری کا ایک معتبر اور قدآور نام


ساغر صدیقی1928ءانبالہ بھارت میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے اپنا بچپن سہارنپور اور انبالہ میں گزرا ۔ساغر صدیقی کا اصل نام محمداختر شاہ تھا اور وہ اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھے ۔
ساغر صدیقی نے ایک مرتبہ کہا تھا:
"میری ماں دلی کی تھی، باپ پٹیالے کا، پیدا امرتسر میں ہوا، زندگی لاہور میں گزاری! میں بھی عجیب چوں چوں کا مربّہ ہوں"
اس قول میں صرف ایک معمولی غلطی کے سوا اور سب سچ ہے۔"
ساغر کو اپنے اکلوتے ہونے کا بھی بہت رنج تھا، وہ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ
"میں نے دنیا میں خداوندِ رحیم و کریم سے بہن بھائی کا عطیہ بھی نہیں پایا۔ یہ معلوم نہیں کہ خدا کو اِس تنہائی سے یگانہ بنانا مقصود تھا یا بیگانہ؟ بہر حال شاید میری تسکینِ قلبی کے لئے کسی کا نام بھائی رکھ دیا گیا ہوجو سراسر غلط ہے۔ دنیا کی چھ سمتوں پہ نظر رکھنے والے صاحبِ فراست لاہور کی سڑکوں پر مجھے جب چاہیں ٹوٹا ہوا بازو کالی چادر میں چھپائے، احساس کے الٹے پاؤں سے چلتا پھرتا دیکھ سکتے ہیں۔اگر کوئی بہن بھائی ہوتا تو یہ حال نہ ہوتا۔"
ساغر کا بچپن انتہائی نا مساعد حالات میں گزرا۔ ساغر نے حبیب حسن خاں سے گھر پہ ہی اردو زبان کی تعلیم حاصل کی۔ اسی دور میں ساغر میں شاعری کا جذبہ پروان چڑھا جس نے محمد اختر شاہ کو ساغر صدیقی بنا دیا۔ ساغر نے ابتدا میں ناصر حجازی تخلص  رکھا تھا مگر بعد میں ساغر صدیقی رکھ لیا۔ ساغر نے کلام پر اصلاح لینے کے لیے لطیف انور گورداسپوری مرحوم کا انتخاب کیا اور ان سے بہت فیض اٹھایا۔ساغر نے امرتسر میں کنگھیاں بنانے کا کام بھی کیا۔
ساغر کی اصل شہرت 1944ء میں ہوئی۔ اس سال امرتسر میں ایک بڑے پیمانے پر مشاعرہ قرار پایا۔ اس میں شرکت کے لیے لاہور کے بعض شاعر بھی مدعو تھے۔ ان میں ایک صاحب کو معلوم ہوا کہ یہ "لڑکا" (ساغر صدیقی) بھی شعر کہتا ہے۔ انہوں نے منتظمین سے کہہ کر اسے مشاعرے میں پڑھنے کا موقع دلوا دیا۔ ساغر کی آواز میں بلا کا سوز تھا اور وہ ترنم میں پڑھنے میں جواب نہیں رکھتا تھا۔ بس پھر کیا تھا، اس شب اس نے صحیح معنوں میں مشاعرہ لوٹ لیا۔
1947ء میں پاکستان بنا تو وہ امرتسر سے لاہور چلا گیا۔ یہاں دوستوں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ اس کا کلام مختلف پرچوں میں چھپنے لگا۔ سینما فلم بنانے والوں نے اسے گیتوں کی فرمائش کی اور اسے حیرت ناک کامیابی ہوئی۔ اس دور کی متعدد فلموں کے گیت ساغر کے لکھے ہوئے ہیں۔ اس زمانے میں اس کے سب سے بڑے سرپرست انور کمال پاشا (ابن حکیم احمد شجاع مرحوم) تھے۔ جو پاکستان میں فلم سازی کی صنعت کے بانیوں میں ہیں۔ انہوں نے اپنی بیشتر فلموں کے گانے ساغر سے لکھوائے اور یہ بہت مقبول ہوئے۔ساغر نے لکھا تھا کہ
"تقسیم کے بعدصرف شعر لکھتا ہوں، شعر پڑھتا ہوں، شعر کھاتا ہوں، شعر پیتا ہوں۔"
ساغر کی شاعری کے سلسلے میں ایک واقعہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ:
 لائل پور کاٹن مل میں ملک گیر طرحی مشاعرہ ہوتا تھا۔ 1958ء میں جگر مراد آبادی کی صدارت میں مشاعرہ ہوا۔ مصرع طرح تھا
سجدہ گاہ عاشقاں پر نقش پا ہوتا نہیں
مختلف شعراء کے بعد ساغر صدیقی نے اپنی یہ غزل سنائی

ایک وعدہ ہے کسی کا جو وفا ہوتا نہیں
ورنہ ان تاروں بھری راتوں میں کیا ہوتا نہیں
جی میں آتا ہے الٹ دیں انکے چہرے سے نقاب
حوصلہ کرتے ہیں لیکن حوصلہ ہوتا نہیں
شمع جس کی آبرو پر جان دے دے جھوم کر
وہ پتنگا جل تو جاتا ہے فنا ہوتا نہیں
اب تو مدت سے رہ و رسمِ نظارہ بند ہے
اب تو ان کا طُور پر بھی سامنا ہوتا نہیں
ہر شناور کو نہیں ملتا تلاطم سے خراج
ہر سفینے کا محافظ ناخدا ہوتا نہیں
ہر بھکاری پا نہیں سکتا مقامِ خواجگی
ہر کس و ناکس کو تیرا غم عطا ہوتا نہیں
ہائے یہ بیگانگی اپنی نہیں مجھ کو خبر
ہائے یہ عالم کہ تُو دل سے جُدا ہوتا نہیں
بارہا دیکھا ہے ساغرؔ رہگذارِ عشق میں
کارواں کے ساتھ اکثر رہنما ہوتا نہیں
یہ غزل سن کر جگر جھوم اٹھے اور حاضرین محفل نے خوب داد دی ۔ جگر مرادآبادی نے اپنی باری آنے پر کہا کہ میری غزل کی ضرورت نہیں حاصل مشاعرہ غزل ہو چکی اور اپنی غزل کو اسیٹج پر ہی پھاڑ دیا۔
ساغر صدیقی نے ہفت روزہ "تصویر" کی ادارت بھی کی۔
ایک اور واقعہ جو وکیپیڈیا سے لیا گیا ہے، پڑھنے اور ساغر کوخراجِ تحسین پیش کرنے کے قابل ہے۔
اکتوبر 1958ء میں پاکستان میں فوجی انقلاب میں محمد ایوب بر سر اقتدار آگئے اور تمام سیاسی پارٹیاں اور سیاست داں جن کی باہمی چپقلش اور رسہ کشی سے عوام تنگ آ چکے تھے۔ حرف غلط کی طرح فراموش کر دیے گئے۔ لوگ اس تبدیلی پر واقعی خوش تھے۔ ساغر نے اسی جذبے کا اظہار ایک نظم میں کیا ہے، اس میں ایک مصرع تھا:
کیا ہے صبر جو ہم نے، ہمیں ایوب ملا
یہ نظم جرنیل محمد ایوب کی نظر سے گزری یا گزاری گئی۔ اس کے بعد جب وہ لاہور آئے تو انہوں نے خواہش ظاہر کی کہ میں اس شاعر سے ملنا چاہتا ہوں جس نے یہ نظم لکھی تھی۔ اب کیا تھا! پولیس اور خفیہ پولیس اور نوکر شاہی کا پورا عملہ حرکت میں آگیا اور ساغر کی تلاش ہونے لگی۔ لیکن صبح سے شام تک کی پوری کوشش کے باوجود وہ ہاتھ ‍ نہ لگا۔ اس کا کوئی ٹھور ٹھکانہ تو تھا نہیں، جہاں سے وہ اسے پکڑ لاتے۔ پوچھ‍ گچھ‍ کرتے کرتے سر شام پولیس نے اسے پان والے کی دوکان کے سامنے کھڑے دیکھ‍ لیا۔ وہ پان والے سے کہہ رہا تھا کہ پان میں قوام ذرا ذیادہ ڈالنا۔ پولیس افسر کی باچھیں کھل گئیں کہ شکر ہے ظلّ سبحانی کے حکم کی تعمیل ہو گئی۔ انہوں نے قریب جا کر ساغر سے کہا کہ آپ کو حضور صدر مملکت نے یاد فرمایا ہے۔ ساغر نے کہا:
بابا ہم فقیروں کا صدر سے کیا کام! افسر نے اصرار کیا، ساغر نے انکار کی رٹ نہ چھوڑی۔ افسر بے چارا پریشان کرے تو کیا کیونکہ وہ ساغر کو گرفتار کرکے تو لے نہیں جا سکتا تھا کہ اس نے کوئی جرم نہیں کیا تھا اور اسے کوئی ایسی ہدایت بھی نہیں ملی تھی، جرنیل صاحب تو محض اس سے ملنے کے خواہشمند تھے اور ادھر یہ "پگلا شاعر" یہ عزت افزائی قبول کرنے کو تیار نہیں تھا۔ اب افسر نے جو مسلسل خوشامد سے کام لیا، تو ساغر نے زچ ہو کر اس سے کہا:
ارے صاحب، مجھے گورنر ہاؤس میں جانے کی ضرورت نہیں۔ وہ مجھے کیا دیں گے۔ دو سو چار سو، فقیروں کی قیمت اس سے ذیادہ ہے۔ جب وہ اس پر بھی نہ ٹلا تو ساغر نے گلوری کلے میں دبائی اور زمین پر پڑی سگرٹ کی خالی ڈبیہ اٹھا کر اسے کھولا۔ جس سے اس کا اندر کا حصہ نمایاں ہو گیا۔ اتنے میں یہ تماشا دیکھنے کو ارد گرد خاصی بھیڑ جمع ہو گئی تھی۔ ساغر نے کسی سے قلم مانگا اور اس کاغذ کے ٹکڑے پر یہ شعر لکھا:

جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی

اس دور کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے

(ساغر صدیقی بقلم خود)
اور وہ پولیس افسر کی طرف بڑھا کر کہا:
یہ صدر صاحب کو دے دینا، وہ سمجھ جائیں گے اور اپنی راہ چلا گیا۔
ساغر صدیقی نے بہت سنہری دور دیکھا تھا مگر پھر وہ آہستہ آہستہ نشے کی دلدل میں ایسے پھنسا کہ پھر باہر نہ نکل سکا اور دنیا نے اُسے فراموش کر دیا۔ ساغر اس لت میں کیسے پڑا، یہ ہمیں وکیپیڈیا کچھ اس طرح بتاتا ہے کہ:
1952ء کی بات ہے کہ وہ ایک ادبی ماہنامے کے دفتر میں بیٹھے تھے۔ انہوں نے سردرد اور اضمحلال کی شکایت کی۔ پاس ہی ایک اور شاعر دوست بھی بیٹھے۔ انہوں نے تعلق خاطر کا اظہار کیا اور اخلاص ہمدردی میں انہیں مارفیا کا ٹیکہ لگا دیا۔ سردرد اور اضمحلال تو دور ہو گیا لیکن اس معمولی واقعے نے ان کے جسم کے اندر نشّہ بازی کے تناور درخت کا بیج بو دیا۔ بدقسمتی سے ایک اور واقعے نے اس رجحان کو مزید تقویت دی۔
اس زمانے میں وہ انارکلی لاہور میں ایک دوست کے والد (جو پیشہ کے لحاظ سے ڈاکٹر تھے) مطب کی اوپر کی منزل میں رہتے تھے۔ اسی کمرے میں ان کے ساتھ‍ ایک دوست بھی مقیم تھے (اب نام کیا لکھوں) ان صاحب کو ہر طرح کے نشوں کی عادت تھی۔ ہوتی کو کون ٹال سکتا ہے۔ ان کی صحبت میں ساغر بھی رفتہ رفتہ اولا بھنگ اور شراب اور ان سے گزر کر افیون اور چرس کے عادی ہوگئے۔ اگر کوئی راہ راست سے بھٹک جائے اور توفیق ایزدی اس کی دستگیری نہ کرے، تو پھر اس کا تحت الثری سے ادھر کوئی ٹھکانہ نہیں رہتا۔
یہی ساغر کے ساتھ‍ ہوا اور افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ خود ان کے دوستوں میں سے بیشتر ان کے ساتھ‍ ظلم کیا۔ یہ لوگ انہیں چرس کی پڑیا اورمارفیا کے ٹیکے کی شیشیاں دیتے اور ان سے غزلیں اور گیت لے جاتے، اپنے نام سے پڑھتے اور چھپواتے اور بحیثیت شاعر اور گیت کار اپنی شہرت میں اضافہ کرتے۔ اس کے بعد اس نے رسائل اور جرائد کے دفتر اور فلموں کے اسٹوڈیو آنا جانا چھوڑ دیا۔ اس میں بھی کوئی مبالغہ نہیں کہ اداروں کے کرتا دھرتا اس کے کام کی اجرت کے دس روپے بھی اس وقت ادا نہیں کرتے تھے، جب وہ ان کے در دولت کی چوکھٹ پر دس سجدے نہ کرے۔ اس نے ساغر کے مزاج کی تلخی اور دنیا بیزاری اور ہر وقت "بے خود" رہنے کی خواہش میں اضافہ کیا اور بالکل آوارہ ہوگیا۔ نوبت بايں رسید کہ کہ کبھی وہ ننگ دھڑنگ ایک ہی میلی کچیلی چادر اوڑھے اور کبھی چیتھڑوں میں ملبوس، بال بکھرائے ننگے پاؤں۔۔۔۔ منہ میں بیڑی یا سگریٹلیے سڑکوں پر پھرتا رہتا اور رات کو نشے میں دھت مدہوش کہیں کسی سڑک کے کنارے کسی دوکان کے تھڑے یا تخت کے اوپر یا نیچے پڑا رہتا۔
اب اس کی یہ عادت ہو گئی کہ کہیں کوئی اچھے وقتوں کا دوست مل جاتا تو اس سے ایک چونی طلب کرتا۔ اس کی یہ چونی مانگنے کی عادت سب کو معلوم تھی چنانچہ بار بار ایسا ہوا کہ کسی دوست نے اسے سامنے سے آتے دیکھا اور فورا جیب سے چونّی نکال کر ہاتھ‍ میں لے لی۔ پاس پہنچے اور علیک سلیک کے بعد مصافحہ کرتے وقت چونی ساغر کے ہاتھ‍ میں چھوڑ دی۔ وہ باغ باغ ہو جاتا۔ یوں شام تک جو دس بیس روپے جمع ہو جاتے، وہ اس دن کے چرس اور مارفیا کے کام آتے۔ فاعتبروا یا اولی الابصار۔
جنوری1974ء میں اس پر فالج کا حملہ ہوا اس کا علاج بھی چرس اور مارفیا سے کیا گیا۔ فالج سے تو بہت حد تک نجات مل گئی، لیکن اس سے دایاں ہاتھ‍ ہمیشہ کے لیے بے کار ہو گیا۔ پھر کچھ‍ دن بعد منہ سے خون آنے لگا۔ اور یہ آخر تک دوسرے تیسرے جاری رہا۔ ان دنوں خوراک برائے نام تھی۔ جسم سوکھ‍ کر ہڈیوں کا ڈھانچہ رہ گیا تھا۔ سب کو معلوم تھا کہ اب وہ دن دور نہیں جب وہ کسی سے چونی نہیں مانگے گا۔ساغر صدیقی کے آخری ایام داتا دربار کے سامنے پائلٹ ہوٹل کے فٹ پاتھ پر گذرے۔اور ان کی وفات بھی اسی فٹ پاتھ پر ہوئی۔
ساغر کی تاریخَ وفات کے متعلق میں نے کچھ کتابوں میں 18 جولائی پڑھا ہے جبکہ وکیپیڈیا پہ 19 جولائی لکھا ہوا ہے۔  اگر کسی علم میں درست تاریخ ہو تو مطلع فرمائیں۔ بہرحال جولائی 1974ءصبح کے وقت اس کی لاش سڑک کے کنارے ملی اور دوستوں نے لے جا کر اسے میانی صاحب کے قبرستان میں دفن کر دیا۔
انا للہ وانا الیہ راجعون!
ساغر  کے شعری مجموعوں میں غمِ بہار، زہرِ آرزو، لوحِ جنوں، شبِ آگہی اور سبز گنبد شامل ہیں۔
ساغر صدیقی کہا کرتے تھے کہ "لاہور میں بہت قیمتی خزانے دفن ہیں مگر انہیں آسانی سے تلاش نہیں کیا سکتا ۔" اور بے شک ساغر صدیقی بھی انہی خزانوں میں سے ایک ہیں۔
ساغر صدیقی کی کچھ تصاویر جو گوگل سے لی گئی ہیں۔