Friday, 28 July 2017

قرض ہے یہ تم پہ چار پھولوں کا


قرض ہے یہ تم پہ چار پھولوں کا ۔۔ ساغر صدیقی ۔۔۔۔تحریر: فرزانہ ناز
*ساغر کی زندگی پہ کوئی تبصرے نہ کر*
*اک شمع جل رہی ہے سررہگزار زیست*
ساغر صدیقی1928ء میں انبالہ میں پیدا ہوئے وہ ماں کی مامتا اور باپ کی شفقت دونوں سے محروم رہے ۔کسی بہن بھائی کا بھی سہارا نہیں تھاساغر نے جس گھر میں ہوش سنبھالا اس گھر میں ساغر سے پہلے حاجی محمد حنیف اور حاجی محمد حسین نام کے دو بزرگ رہتے تھے اسی مکان میں لکڑی کے ایک پرانے صندوق میں پڑی کچھ کتابیں ساغر کی ساتھی بن گئیں ساغر نے حبیب حسن نامی ایک بزرگ سے تعلیم حاصل کی اور بچپن سے شعر کہنے کا شوق ہوا سات آٹھ برس کی عمر میں اس نے اردو زبان پر عبور حاصل کر لیا شروع میں ’’ناصر حجازی‘‘ کے نام سے شاعری کی لیکن ڈیڑھ دو ماہ بعد ہی یہ تخلص’’ساغر صدیقی‘‘ میں تبدیل ہو گیا جو آج تک موجود ہے ۔
درمیانہ قد، کشادہ پیشانی، ٹیڑھی آنکھیں مٹی سے اٹے بال، بڑھی ہوئی شیو، چپل سے محروم پاؤں ، سیاہ میلی کچیلی چادر میں لپٹا نحیف ونزار جسم لئے ساغر اپنے حال میں مست لاہور کی سڑکوں پر خاک میں خاک ہو تا رہا ساغر نے جتنی چرس پی تھی اور مارفیا کے انجکشن لئے وہ کسی بھی آدمی کو پاگل کرسکتا تھا لیکن وہ آخر دم تک خوبصورت شعر کہتا رہا ساغر ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا بلکہ تقسیم ہند سے پہلے وہ ایک خوش پوش نوجوان تھا اور ادبی محفلوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتا تھا ڈاکٹر تاثیر مرحوم اور شمس العلماء تاجور نجیب آبادی کے زیر سایہ اردو مجلس کے نام سے قائم ہونے والی بزم کے مشاعروں میں باقاعدگی سے شرکت کرتا تھا پھر تقسیم ہند کے بعد بھی ساغر کا یہ سفر اسی طرح جاری رہا وہ پتلون اور بوسکی کی شرٹ پہنتا تھا وہ بہت دلچسپ باتیں کرتا تھا اپنی شاعری اور ترنم سے مشاعرے لوٹ لیا کرتا تھا پھر اچانک ہی ساغر گردش میں آگیا تو بوسکی کی جگہ کھدر نے لے لی اور آخر کار ساغر نے یہ لباس فاخرہ بھی دنیا کے منہ پر دے مارا اور ایک کالی چادر اوڑھ لی اور یہی چادر تادم مرگ اس کے ساتھ رہی وہ اپنی ذات میں سمٹنے لگا اور لوگوں سے دور ہوتا چلا گیا وہ اپنے لئے فقیر کا لفظ استعمال کرنے لگا
*ہم فقیروں کی صورتوں پہ نہ جا*
*ہم کئی روپ دھار لیتے ہیں*
اس نے اپنی ذات کا سارا میل باہر انڈیل دیا اور اس کے اندر چراغاں ہوگیا آخر خاک میں لوٹتے اس فقیر نے 19جولائی 1974ء کو اس بے مہر زندگی سے منہ موڑ لیا اور ہمیشہ کے لئے سپرد خاک ہوگیا اس میں کوئی شک نہیں کہ ساغر ایک عظیم غزل گو شاعر تھا ممتاز شاعر ظہیر کاشمیری نے کہا تھا کہ ساغر بنیادی طور پر غزل کے میدان کا شہسوار تھا وہ جمال اور جلال دونوں کا شاعر تھا وہ مری ہوئی سماجی قوتوں کا نوحہ گر نہیں تھا نئی ابھرتی ہوئی طاقتوں کا نغمہ گر تھا مرزا ادیب ساغر کی شخصیت کے بارے میں لکھتے ہیں میں نے اور کسی نے بھی ساغر صدیقی کی زبان سے کوئی فحش بات نہیں سنی برابھلا کہنا وہ جانتا نہیں تھا ہر ایک سے طلب بھی کر لیتا تھا یہاں بھی اس کی مردانگی ملاحظہ فرمائیں چار آنے مانگنے پر آپ آٹھ آنے یا ایک روپیہ دے دیں تو وہ چار آنے لے کر باقی سکے واپس کر دیتا یہ اس دیوانے کا اصول تھا۔
ساغر کی شاعری میں زندگی اور زندگی کے تلخ رویے بہت زیادہ نمایاں ہیں ساغر نے جس طرح زندگی کو اور زندگی نے جس طرح ساغر کو برتا اس نے ساغر کے لہجے میں تلخی گھول دی مثال کے طور پر ۔
*خاک اڑاتی ہے تیری گلیوں میں*
*زندگی کا وقار دیکھا ہے*
*زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے*
*جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں*
*پھرتے ہیں لوگ چاک گریباں گلی گلی*
*مجروح زندگی کو لگائے ہوئے گلے*
معروف لکھاری یونس ادیب ساغر صدیقی کے دوست تھے مداح اور عاشق تھے ساغر کے کلام کو محفوظ کرنے اور شائع کروانے میں بھی یونس ادیب ہی کی کوششیں ہیں ورنہ ساغر کے بے نیازانہ رویے کی وجہ سے ایک بڑا نقصان تو یہ ہوا کہ اس کی شاعری کا ایک بڑا حصہ چرالیاگیا یا سستے داموں خرید لیاگیا لیکن یہ نقصان بھی ساغر کی عظمت کو کم نہیں کر سکا ہر سال ساغر صدیقی کی برسی پر ’’ساغر میلے‘‘ کا اہتمام بھی یونس ادیب کی کوششوں سے ہی ممکن ہوا گوالمنڈی کا خواجہ شفیع امرتسر کے وقت سے ساغر کا دوست اور مداح تھا نامور گلو کار مہدی حسن نے اسی سے ساغر کی غزل *”چراغ طور جلاؤ بڑا اندھیرا ہے”* لی اور گائی اس کی آواز سے یہ غزل بھارت والوں کے پاس چلی گئی ایک دن ساغر سوتر منڈی میں ایک پان کی دکان کے سامنے سے گزررہا تھا تو آل انڈیا ریڈیو کے کسی سٹیشن سے کوئی گائیک اس کی یہی غزل گارہا تھا ساغر رک گیا غزل کے اختتام پر اناؤنسر نے جب یہ کہا ’’ ابھی آپ پاک وہند کے مشہور شاعر ساغر صدیقی کی غزل سن رہے تھے’’ تو ساغر نے ہنس کر کہا‘‘ واہ ان کو معلوم ہی نہیں کہ ساغر کس حال میں زندہ ہے اچھا اللہ وارث ہے ‘‘ ساغر صدیقی جو اپنی زندگی میں ہی مرگیاتھا مرنے کے بعد اس کے کلام نے اسے ہمیشہ کے لئے زندہ وجاوید کر دیا نامور ادیبہ امرتا پریتم نے صحیح کہا ہے کہ ’’ایک شاعر کی حیثیت سے ساغر صدیقی کی زندگی اس دھرتی پر پاکبازی اور سچائیوں سے پیار کی بے داغ کہانی ہے اور ہم سب کا فرض ہے کہ انسانی احترام کی بحالی کی جدوجہد میں فکرو فن کے دیے روشن کرنے والے ساغر صدیقی ایسے شاعروں کو خلوص سے یاد کیا جائے۔
*یاد رکھنا ہماری تربت کو*
*قرض ہے تم پہ چار پھولوں کا*
ساغر لفظوں کے ساتھ ایک ماہر کھلاڑی کی طرح کھیلتا نظر آتا ہے اس کی شاعری چند روز کی شاعری نہیں بلکہ زمانوں کی شاعری ہے اس نے جو بات برسوں پہلے کہی تھی وہ دور حاضر پر بھی اسی طرح صادق آتی ہے ہمیں یقین ہے کہ یہ اشعار پڑھ کر آپ بھی ہم سے اتفاق کریں گے کہ ساغر صرف گزشتہ کل کا شاعر نہیں تھا بلکہ وہ آج کا اور آئندہ کا شاعر بھی ہے
*یقین کر کہ یہ کہنہ نظام بدلے گا*
*میرا شعور مزاج عوام بدلے گا*
*مفلسوں پر ہنس رہی ہے عظمتیں ابلیس کی*
*اور خدا کی رحمتیں منسوب زرداروں کے ساتھ*
*بے وجہ تو نہیں ہیں چمن کی تباہیاں*
*کچھ باغباں ہیں برق وشرر سے ملے ہوئے*
*یقیناً اب عوامی عدل کے زنجیر چھنکے گی*
*یہ بہتر ہے کہ مجرم خود ہی جرموں کی سزا چن لیں*
کیا ایسا نہیں لگتا کہ شاعر نے یہ اشعار حالات حاضرہ کے لئے کہے ہیں ؟ 19جولائی اس عظیم فقیر شاعر کی برسی کا دن تھاجو آیا اور گزر گیا۔ اسے زندگی نے جیتے جی کچھ نہ دیا لیکن وہ درویش مر کے زندہ ہو گیا ہماری دعا ہے اللہ تعالیٰ اسے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے آمین ۔ساغر صدیقی کے بارے میں جاننے کیلئے اس کا اپنا یہ شعر ہی کافی ہے
*ساقیا تیرے بادہ خانے میں*
*نام ساغر ہے مے کو ترسے ہیں*

Monday, 24 July 2017

یاد رکھنا ہماری تربت کو

1928میں امبالہ میں پیدا ہونے والا عظیم شاعر ’’محمد اختر‘‘ ۔۔۔جو گھر بار، اہل وعیال سے محروم عجب بے سروسامانی کی سی زندگی گزار گیا ۔نہ ماں کی آغوش نصیب ہوئی نہ باپ کی شفقت ۔کوئی ناز اٹھانے والی بہن تھی نہ ساتھ نبھانے والا بھائی اور نہ ہی پر پیچ زندگی کے آزار سہلانے کے لئے کوئی ہم سفر ،بھلا یہ بھی کیا زندگی تھی جس میں کسی رشتے کا بار تھا نہ اپکار۔سہارنپور اور انبالا کی گلیوں میں بچپن بیتایا تو زندگی کا ایک احسان ہوا کہ استاد حبیب حسن جیسی شخصیت کا ساتھ نصیب ہوا۔انہی کی بدولت طبیعت کو شاعرانہ مزاج اورشعر کہنے کا ہنر نصیب ہوا ۔کام کی تلاش میں سرگرداں اس خانہ بدوش صفت انسان نے امرتسر کا رخ کیا وہاں کچھ عرصہ ہال بازار کے کسی دکاندار کے ہاں لکڑی کی کنگھیاں بنا نے کا کام کیا ۔شعر کہنے کی ابتدا ء تو آٹھ سال کی عمر سے شروع ہوئی لیکن تقریباً 16سال کی عمر سے مشاعروں میں باقاعدہ شرکت کا آغاز کرتے ہوئے کم عمری میں جالندھر،لدھیانہ اور گورداسپور کے مشاعروں کو رونق بخشی۔حاضرین محفل اس دبلے ،پتلے ،جدید طرز کی پتلون اور بوسکی کی شاندار شرٹ میں ملبوس کرلی زلفوں والے لڑکے کی مترنم آواز کی چاشنی میں ڈوبے کلام کو سن کر مبہوت رہ جاتے ۔وہ جی بھر کے اسے داد دیتے اور اسکے حوصلے بڑھاتے۔جب شاعری کا آغاز کیا تو شروع شروع میں قلمی نام ’’ناصر مجازی ‘‘رکھا۔1947میں وہ 19برس کی عمر میں پاکستان ہجرت کر آیا۔حکومت اس زمانے میں ہجرت کرنے والے بے گھر لوگوں کو معمولی ٹھکانے سونپا کرتی تھی۔اس خوددار اورانا پرست انسان نے حکومت کی دی امداد قبول کرنے کی بجائے کرائے کے ٹھکانے میں رہنے کو ترجیح دی ۔سستے ہوٹل کے معمولی کمرے کا کرایہ اکثر اوقات اپنی شاعری کو اونے پونے داموں بییچ کر بھی پورا نہ کر پاتا۔اس عظیم شاعر کو بعد ازاں دنیا ’’ساغر صدیقی‘‘ کے قلمی نام سے سے جاننے لگی ۔ جو دنیائے ادب کا ایسا چمکتادمکتا ستارہ بنا کہ جس کی لو کے آگے بہت سوں کا نام اور کام دھندلا گیا ۔ساغر نے لاہور کی فلمی دنیا کو بھی اپنا فن عنایت کیا جو بہت سے انمٹ اور جاوداں نغمات میں اک طویل مدت تک ڈھلتا رہا۔ان کے دوست احباب میں امین گیلانی ،زہیر کاشمیری ،احمد راہی ،ساحر لدھیانوی ،شاد ،نریش کمار،لطیف گورداسپوری وغیرہ شامل تھے جن کا ساغر بے حد ادب و احترام کیا کرتے ۔ہفت روزہ تصویر سمیت کئی روزناموں اور ہفتہ وار پرچوں سے منسلک رہے۔1947 سے 1952تک کا دور ساغر کا سنہرا دور تھا،لیکن 1952میں کچھ بد اعمال دوست احباب نے پہلے مارفیا،بھنگ اور پھر چرس افیون کا عادی بنا ڈالا۔یہ اس کی بدنصیبی اور بد بختی ہی رہی کہ جلد ہی حالات پلٹا کھا گئے ۔جو ہفت روزہ ہاتھ میں تھا وسائل کی کمی اور دوستوں کے عدم تعاون کی وجہ سے اسے سواپانچ روپے میں فروخت کرنا پڑگیا۔کامیابی سے شروع کئے گے سفرکو اچانک ایک غمگین موڑ ملا جس نے ساغر صدیقی کے حوصلوں کو پستی کی طرف دھکیل دیا یا شاید ان کے ٹوٹنے کا سبب برے وقتوں میں دوست احباب کا سنگدلانہ اور بے درد رویہ رہا ہو کیونکہ جس انسان کے پاس گھر بار اور اپنوں کے التفات نہ ہوں اس کی تمام تر امیدوں اور توقعات کا مرکز اس کے دوست احباب ہی ہوا کرتے ہیں جو اکثر اس وقت ساتھ چھوڑ دیتے ہیں جب ہمیں ان کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔دوست احباب کی کم ظرفی کی مثال اس سے بڑھ کر کیا ہو گی کہ چرس کی پڑیا اور مارفیا کے ٹیکے کے عوض وہ ان سے ان کی متاع حیات بصورت غزل یا گیت لے جایا کرتے اور کمال بے ڈھٹائی سے اپنے نام سے چھپوالیا کرتے ۔کہا جاتا ہے کہ ساغر نے حفیظ جالندھری سے پہلے پاکستان کا قومی ترانہ لکھا۔یہ گیت کشمیر کی سر سبز وادیوں میں فلمایا گیا ساغر نے اسے اپنی ہی آواز میں دی اس کے آغاز میں بول کچھ یوں تھے ’’سلام اے قائد اعظم۔۔‘‘حکومت پاکستان نے اس ترانے کو منظور نہیں کیا۔کتنی عجیب سی بات ہے کہ وہ شخص جسے اس ملک نے محض رسوائی اور دربد ری، اپنی بے حسی اور بے قدری کی تھالی میں دھر کردی اور وہ بھی ایک خیرات سمجھ کر۔ جس شخص نے اس ملک میں پلنے والی اقرباء پروری ،کرپشن اور استحصالی نظام کے بھیانک روپ سے بددل ہوکر اپنے اندرون ا ور بیرون کو گھائل کر ڈالا کبھی وہ بھی اس وطن کے عشق میں مبتلا تھا ۔وہ پرُ امید تھا،پرُ جوش تھا۔لیکن کاش وہ حد سے زیادہ حساس نہ ہوتا۔کاش اس نے صرف اپنے ہی بارے سوچا ہوتا تو کبھی مطلب پرستوں اور مفاد پرستوں کے ہاتھوں زخم نہ اٹھاتا۔ساغر کی زندگی میں ہی مہدی حسن نے ان کی ایک غزل
’’چراغ تو جلاؤ بڑا اندھیرا ہے۔۔ ‘‘
گائی جسے بہت پزیرائی ملی۔ایوب خان نے ان کی شاعری سے متاثر ہو کر انہیں ملاقات کے لئے بلاوا بھیجا لیکن مگر ان کی انا نے گوارا نہ کیا کہ انہیں حکومتی امداد دی جائے سو اس بلاوے کو ٹھکراتے ہوئے جوابی پیغام میں فقط یہ شعر بھجوادیا ’’ہم سمجھتے ہیں ذوق سلطانی کھلونوں سے بہل جایا کرتے ہیں ‘‘ میر تقی میر کے بعد ساغر صدیقی کو درد کا شاعر مانا جاتا ہے۔ درد نہ صرف اس کے قلبی اظہار کا ذریعہ بنا بلکہ اس کا اوڑھنا بچھونا بھی درد ہی تھا۔اسی درد نے اسے دنیا جہاں سے بیگانہ کر دیا: ’’اگرچہ ہم جا رہے ہیں محفل سے نالہ دل فگار بن کر مگر یقیں ہے کہ لوٹ آئیں گے نغمۂ نو بہار بن کر دیارِ پیر مغاں میں آکر یہ اک حقیقت کھلی ہے ساغر خدا کی بستی کے رہنے والے تو لُوٹ لیتے ہیں یار بن کر ‘‘ لوحِ جنوں،شیشۂ دل،غم بہار،شبِ آگاہی،مقتل گل،ان کے کلام کی کتابیں اور غزلیات کا مجموعہ ’’کلیات ساغر‘‘ان کے باطن کا وہ نچوڑ ہے جس کا ترنم اور نغمگی ہمیشہ ترو تازہ رہے گی۔اس کے علاوہ کلام باہو کا اردو ترجمہ اور سوہنی مہینوال کا وہ ترجمہ بھی جو پورے شعری مجموعے کی شکل میں محفوظ نہ رہ سکا۔ ساغر ایک سچا شاعر تھا۔اسکی شاعری درد اور مفلسی کی تصویر تھی ۔اسے اسکی معاشی کسمپرسی سے ذیادہ ادبی اجارہ داری کی ستم ظریفیوں نے رگیدہ۔بے درد زمانے کے سفاک رویے اس کے احساسات اور جذبات کو مجروح کرتے رہے۔وہ غم کو پینے کا عادی ہو گیا تو اس غم کو سہنے کا درماں مصنوعی نشے سے کرنے لگا اوراپنے زخموں کو سہلانے لگا ۔ اے دل بے قرار چپ ہو جا جا چکی ہے بہار چپ ہو جا اب نہ آئیں گے روٹھنے والے داد اشک بار چپ ہو جا لوگ اسے طعن و تشنیع کا نشانہ بناتے اور کہتے ’’ساغر تو نے پی رکھی ہے ‘‘ اور وہ مسکراتا اور کہتا ’’ میں تلخی حیات سے گھبرا کے پی گیا غم کی سیاہ رات سے گھبرا کے پی گیا دنیائے حادثات ہے اک درد ناک گیت دنیا کے حادثات سے گھبرا کے پی گیا ۔‘‘ لوگ کہتے ہیں کہ ساغر ایک دیوانہ تھا لیکن اگر حال کی دیوانگی باطن کی بیداری ہوجائے تو جذب و سرور کی وہ کیفیت طاری ہو جاتی ہے جس کی واردات قلبی سے ساغر گزر رہا تھا۔وہ دنیا کے لئے مجذوب تھا جسے وقت اور زمانہ اپنے قدموں تلے روند رہا تھا جب کہ عین انہی لمحوں میں ساغر اس دنیا اور اس کی آلائشی خرافات کو اپنے قدموں تلے روند رہا تھا ۔وہ ننگے پاؤں،شانوں پہ کالی چادر اوڑھے ،مٹی سے اٹے ملگجے بالوں اور دھول سے لتھڑے وجود کو لئے لاہور کی سرکلر روڑ،انارکلی ،اخبار مارکیٹ ،شاہ عالمی روڑ،ایبک روڑ اور داتا دربار کے علاقوں میں عجب بے سروسامانی کے عالم میں گھومتا پایا جاتا۔اس نے فلمی گانوں سے کمائی گئی آمدنی خود سے بھی ذیادہ ضرورت مندوں میں تقسیم کر دی تھی اور خود کئی برس بھیک کی روٹی کھا کے گزار دئے ۔وہ اکثر رات کی تاریکی میں موم بتی کی لو میں، فٹ پاتھ پہ بیٹھا اپنا کلام لکھا کرتا کبھی اسے پڑھ کے لوگوں کو سناتا کبھی اسے اسی موم بتی کی لو میں جلا کر خاکستر کر دیتا۔
’’روداد محبت کیا کہیے کچھ یاد رہی کچھ بھول گئے
دو دن کی مسرت کیا کہیے کچھ یاد رہی کچھ بھول گئے
کچھ حال کے اندھے ساتھی تھے کچھ ماضی کے عیار سجن
احباب کی چاہت کیا کہئیے کچھ یاد رہی کچھ بھول گئے
اب اپنی حقیقت بھی ساغر بے ربط کہانی لگتی ہے
دنیا کی حقیقت کیا کہئے کچھ یاد رہی کچھ بھول گئے‘‘
اس کا اب کوئی وفادار نہ رہا تھا نہ یہ وقت نہ زمانہ ہاں ایک سگ ضرور اسکا وفادار تھا جو اصحاب کہف کے سگ کی طرح اسکے ساتھ ہی گہری نیند سوجانے کو بھی تیار تھا۔وہ تقریباً چھ سالوں تک اس کے سنگ رہا۔ساغر دکانداروں سے ملی روٹی سے ایک بڑا حصہ اس وفادار ساتھی کو سونپ دیتا۔۔جب کبھی بے سروسامانی کے عالم میں فضا یخ بستہ ہوجاتی تو اپنے وجود کو برفانی ہوا کی سل میں مدفن ہونے سے بچانے کے لئے وہ ایک بجھے ہوئے تندور کے قریب لیٹ کے رات بیتا لیتا۔ایک مہربان دوست عبدالرحمان نے ایک عدد لحاف عنایت فرما تودیا لیکن یونہی رستے پہ چلتے چلتے اک ٹھٹھرتے فقیر کو جو دیکھا تو اسے خود سے ذیادہ مستحق جان کے لحاف اس کے حوالے کر دیا اور خود کو اک بار پھر سرد ہواؤں کے تھپیڑوں کے سپرد کردیا۔ ایسا درویش اور مجذوب کہ جسے سب کے حال کی فکر تھی ہاں اگر خبر نہ تھی تو اپنے ہی حال کی نہ تھی۔ زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں آؤ اک سجدہ کریں عالمِ مدہوشی میں لوگ کہتے ہیں کہ ساغر کو خدا یاد نہیں اس کے آخری ایام بہت تکلیف میں گزرے جب وہ بیماری سے خون تھوکنے لگا تھا ۔بڑی ہی درد بھری زندگی تھی جس کی بظاہر دنیا والوں کے لئے کریہہ یادیں چھوڑ کے وہ سن 1974کے ایک دن 19جولائی کی تاریک صبح کوملک عدم سدھار گیا ۔اس مجذوب کا بے جان وجود مال روڈ کی الفلاح بلڈنگ کے سامنے فٹ پاتھ پہ پایا گیا ۔کہا جاتا ہے کہ ساغر کا وجود بیماری سے نہیں بلکہ رات بھر پڑنے والی کہر سے اکڑ گیا تھا۔وہ کریہہ وجود تو مٹی کے حوالے ہو گیا لیکن اس کی شاعری امر ہو گئی۔کہتے ہیں اس کے اولین ساتھی نے اس جگہ کو نہ چھوڑا جہاں ساغر کا بے روح جسم پایا گیا تھا اور ٹھیک ایک سال بعد اسی جگہ لوگوں نے اسکا بے جان وجود بھی دیکھا۔میانی صاحب کے قبرستان میں ساغرکے مزار کی ’’ لوح تربت ‘‘پہ لکھا گیا اس کا اپنا شعر اس کی دنیا سے محض اتنی سی التفات کا تقاضہ کرتا دکھائی دیتا ہے
یاد رکھنا ہماری تربت کو
قرض ہے تم پہ چار پھولوں کا

Friday, 21 July 2017

ساغر صدیقی کے آخری دن لاہور میں

ساغر صدیقی کے آخری دن لاہور میں


لاہور میں قیامت کی گرمی پڑ رہی تھی۔ ی جولائی کے دوسر ے ہفتے کی بات ہے۔ ا دوپہر میں ریڈیو اسٹیشن سے نکل کر لوہاری درواز ے پہنچا تو مسلم مسجد کے مینار کے نیچے مجھے ساغر کی ایک جھلک دکھائی دی۔ اُس نے اپنے نحیف و نزار جسم سے سیاہ چادر اُتار دی تھی اور ڈھیلا ڈھالا سفید کرتا پہنے چھڑی کے سہار ے کھڑا تھا۔
میں ٹریفک چیر کر اُس کی طرف بڑھا تو اُس نے دھونکی کی طرح چلتے ہوئے سانس کو روک کر مجھے دیکھا اور کہا " میں تمہں ہی یاد کر رہا تھا کہ تم بھی نظارا کر لیتے اور ہاں تم ضرور پوچھو گے کہ فقیر نے سیاہ چادر کیوں اُتار دی ہے اور سفید کُرتا کیوں پہن لیا ہے؟" اور چھڑی دکھا کر بولا۔ " سب کچھ بتاؤں گا پہلے میری صلیب دیکھو۔" یہ کہتے ہوئے پھر اُس کا دم اُکھڑنے لگا اور اُس نے کھانس کر بلغم تھوکی تو دم لے کر کفن نما سفید کُرتے کو چھو کر بولا۔
"مقتل کی طرف جانے کی گھڑیاں آ گئی ہیں اور میں نے کفنی پہن لی ہے۔" میں نے جلدی سے پوچھا " لیکن تم ہو کہاں؟" اُس نے اپنی بے نور ہوتی آنکھوں سے عینک اُتار کر پر ے پھینک دی اور بولا " اب کچھ دیکھنے کو دل نہیں چاہتا اور جا بھی کہاں سکتا ہوں۔ صرف چولا بدلنے گیا تھا۔ اب تو میں نے سب تیاریاں مکمل کر لی ہیں۔"
ٹریفک کے شور میں ساغر کی آواز ڈوب ڈوب جاتی تھی۔ پھر وہ میر ے آخری سوال کا جواب دیے بغیر لوہاری کے اندر اپنے لرزیدہ جسم کو کھینچ کر لے گیا۔
رات کو مجھے دیر تک نیند نہ آئی اور مجھے یوں محسوس ہوتا رہا جیسے روشنی اپنے آپ کو سمیٹ رہی ہے۔ اُنہی دنوں طالب چشتی روتا ہوا ریڈیو اسٹیشن میں داخل ہوا اور اُس نے گلوگیر آواز میں بتایا " بابا جی خون تھوک رہے ہیں اور پان گلی کے باہر منیر چھولیاں والے کے تھڑ ے کے نیچے پڑ ے ہیں۔
میں کام جاری نہ رکھ سکا اور طالب کے ساتھ لوہاری پہنچا تو ساغر وہاں نہیں تھا۔ ہم نے انار کلی، ایبک روڈ، آبکاری روڈ، پیسہ اخبار، شاہ عالمی اور سوتر منڈی میں ہر جگہ اُسے تلاش کیا لیکن ساغر کا کوئی نشان نہ ملا۔
دوسر ے دن میں ریڈیو اسٹیشن جانے کی بجائے صبح ہی صبح لوہاری چلا گیا اور اُسے مکتبہ جدید کے سامنے دیکھ کر میرا دم گھٹنے لگا۔ راہگیر اُسے دیکھ کر آگے بڑھ جاتے تھے اور دکان دار اپنے اپنے گاہکوں میں مصروف تھے۔ حالانکہ سارا شہر اُسے خون تھوکتے ہوئے اس طرح دیکھ رہا تھا۔ جیسے لوگ روسن اکھاڑ ے میں جمع ہوں اور خونیں منظر دیکھ کر تالیاں بجا رہے ہوں۔ جس میں ساغر کفن پہنے بوجھل سانسوں کے ساتھ نیم جان ہو کر اپنے آپ کو گھسیٹ رہا تھا۔ اُس کے کفن پر خون کے دھبے اس طرح جگمگا رہے تھے جیسے خنجر بکف جلاد اُس پر ٹوٹ پڑ ے ہوں۔
اُس نے بند ہوتی ہوئی آواز میں کچھ کہنا چاہا تو اُس کے منہ سے خون نکل کر اُس کے ہونٹوں پر پھیل گیا، اُس نے سفید آستین سے پونچھ کر دوبارا کچھ کہنے کی آرزو کی تو خون کی لکیریں اُس کی کفنی پر بہنے لگیں۔ اپنے ہی خون میں شرابور ساغر صدیقی اس ہنستے بستے شہر میں کئی دنوں تک مقتل کا نظارا بنا رہا، اُس وقت ملک کی سب سے بڑی ادبی تنظیم رائٹرز گلڈ کے انتخابات پر پانی کی طرح روپیہ بہایا جا رہا تھا اور بہت سار ے خوش حال ادیب اور شاعر رائٹرز گلڈ سے معذوروں کا وظیفہ بھی پا رہے تھےلیکن ساغر جس نے عمر بھر صلہ و ستائش سے بے نیاز ہو کر حُسن و پیار اور رحم کے گیت تراشے تھے، اپنے خون آلود کُرتے میں لپٹا تیسر ے دن بے کسی کے ساتھ مر گیا تھا۔
اُسے کس نے کفن پہنایا اور کون لوگ دفن کرنے قبرستان گئے۔ یہ شکستِ ساغر کی آخری گمشدہ کڑی ہے اور جس طرح کسی کو یہ معلوم نہیں کہ اُس نے کس ماں کی گود میں آنکھ کھولی؟ کس باپ کی شفقت سے محروم ہوا؟ اور کس بھائی نے اُسے پیار سے پکارا؟ اس طرح یہ بھی معلوم نہیں کہ اُسے قبر میں اُتارنے والے کون تھے؟
ساغر کو قبرستان میانی صاحب میں دفن ہوئے نو سال بیت گئے ہیں اور میں اُس کی زندگی کے بکھر ے بکھر ے مناظر ترتیب دیتے ہوئے اُس کی آخری آرام گاہ پر لگا ہوا ایک کتبہ پڑھ رہا ہوں۔ جس پر یہ الفاظ کنندہ ہیں۔
" عاشق کو سجدہ کرنے کی مستی میں اس بات سے کوئی سروکار نہیں ہوتا کہ اُس کی پگڑی کہاں گری ہے اور اُس کا سر محبوب کے قدموں پر کس انداز سے گرتا ہے۔"
لیکن اُس کے کسی مداح نے اُس کے کتبے پر یہ الفاظ لکھوائے ہوئے ہیں " ساغر کا قاتل یہ معاشرہ ہے" اور نیچے ساغر کا یہ شعر درج ہے۔

سُنا ہے اب تلک واں سونے والے چونک اُٹھتے ہیں

صدا دیتے ہوئے جن راستوں سے ہم گزر آئے

دوستو! ساغر صدیقی کی فنی عبادتوں اور اُس کی پاکیزہ شخصیت کے خدوخال لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے۔ اُس کی زندگی میں جھانک کر دیکھنا میری ہمتوں سے باہر ہے۔ شکستِ ساغر کے عنوان سے اُس کی یادوں کو ترتیب دینا میری ایسی آرزو تھی جسے میں نے برسوں سے اپنے دل میں سنبھال سنبھال رکھا ہوا تھا۔
اور جب بھی میں اُس کے بار ے میں لکھنے کے لیے قلم اُٹھاتا ہوں تو موتیوں کے پھولوں کی خشبو میر ے احساس میں پھیل جاتی ہے اور پھر اچانک ہی موتیوں کے پھول خون کے دھبوں میں بدل جاتے ہیں۔
قبرستان میانی صاحب کے قریب سے گزرتے ہوئے مجھے اکثر وہ ساغر صدیقی یاد آ جاتا ہے جو برسوں پہلے مجھے اس شہر میں ملا تھا۔ گھنگھریالے بالوں، خوبصورت آنکھوں اور خوبصورت چہر ے والا ساغر صدیقی اور پھر ایک تباہ حال شاعر! جس کی میت پر کوئی اپنا آنسو بہانے والا نہ تھا۔ زندگی کی المناکیوں کا ایک ایسا عنوان بن گیا جس کو لکھنے کے لیے لہو کے چھینٹے اُڑانے پڑتے ہیں۔
شکستِ ساغر ایک فرد کا المیہ نہیں اس پور ے سماج کا المیہ ہے جس سے بے رحم سرمایہ دارانہ نظام نے احساسِ درد مندی چھین لیا ہوا ہے۔ اور افراد کو ایک دوسر ے سے اس طرح الگ کر کے رکھ دیا ہے کہ وہ بدترین حالتِ بیگانگیِ ذات میں مقید ہو کر رہ گئے ہیں۔
ساغر نے تمام زندگی دار و رسن پر گزاری۔ لیکن مرنے کے بعد اُس سے زندگی کوئی بھی نہ چھین سکا۔ اُس نے تو اپنے لہو سے فکر و فن کا سنگھار کیا تھا۔ فاقوں کی سیاہ راتوں اور بے چارگی میں ڈوبی ہوئی صبحوں میں بھی اُس نے سچے خیالوں اور پُر نور جذبوں کے فانوس روشن رکھے۔
اُس نے بے گھروں کے دکھ میں اپنا گھر بنانے کے خیال کو جھٹک دیا۔ ننگے زخمی پیروں کو دیکھ کر خود تپتی ہوئی سڑکوں پر ننگے پاؤں جلتا رہا۔ برہنہ جسموں کی بے وقعتی پر سیاہ پوشی کرنے والے کے حوصلے کا مقابلہ کون کر سکتا ہے؟ اور بھوکے معدوں کے غم میں فاقوں کے دوزخ میں جلنا اُسی کا کمال تھا۔
یہ وہ انسانی کمال ہے جو صرف آج کے بے برکت دور میں ساغر کی زندگی میں نظر آتا ہے اور یہی وہ حقیقت ہے جو صدیوں تک اُس سے اہلِ درد کی محبتوں کو زندہ رکھے گا
۔یونس ادیب صاحب کی کتاب " شکستِ ساغر" سے اقتباس۔ساغر صدیقی
ہے دعا یاد مگر حرفِ دعا یاد نہیں
ہے دعا یاد مگر حرفِ دعا یاد نہیں
میرے نغمات کو اندازِ نوا یاد نہیں
ہم نے جن کے لیے راہوں میں بچھایا تھا لہو
ہم سے کہتے ہیں وہی عہدِ وفا یاد نہیں
زندگی جبرِ مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانے کس جرم کی پائی ہے سزا، یاد نہیں
میں نے پلکوں سے درِ یار پہ دستک دی ہے
میں وہ سائل ہوں جسے کوئی صدا یاد نہیں
کیسے بھر آئیں سرِ شام کسی کی آنکھیں
کیسے تھرائی ستاروں کی ضیا یاد نہیں
صرف دھندلائے ستاروں کی چمک دیکھی ہے
کب ہوا کون ہوا مجھ سے خفا یاد نہیں
آؤ اک سجدہ کریں عالمِ مدہوشی میں
لوگ کہتے ہیں کہ ساغر کو خدا یاد نہیں

ساغر صدیقی اردو شاعری کا ایک معتبر اور قدآور نام

 ساغر صدیقی اردو شاعری کا ایک معتبر اور قدآور نام


ساغر صدیقی1928ءانبالہ بھارت میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے اپنا بچپن سہارنپور اور انبالہ میں گزرا ۔ساغر صدیقی کا اصل نام محمداختر شاہ تھا اور وہ اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھے ۔
ساغر صدیقی نے ایک مرتبہ کہا تھا:
"میری ماں دلی کی تھی، باپ پٹیالے کا، پیدا امرتسر میں ہوا، زندگی لاہور میں گزاری! میں بھی عجیب چوں چوں کا مربّہ ہوں"
اس قول میں صرف ایک معمولی غلطی کے سوا اور سب سچ ہے۔"
ساغر کو اپنے اکلوتے ہونے کا بھی بہت رنج تھا، وہ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ
"میں نے دنیا میں خداوندِ رحیم و کریم سے بہن بھائی کا عطیہ بھی نہیں پایا۔ یہ معلوم نہیں کہ خدا کو اِس تنہائی سے یگانہ بنانا مقصود تھا یا بیگانہ؟ بہر حال شاید میری تسکینِ قلبی کے لئے کسی کا نام بھائی رکھ دیا گیا ہوجو سراسر غلط ہے۔ دنیا کی چھ سمتوں پہ نظر رکھنے والے صاحبِ فراست لاہور کی سڑکوں پر مجھے جب چاہیں ٹوٹا ہوا بازو کالی چادر میں چھپائے، احساس کے الٹے پاؤں سے چلتا پھرتا دیکھ سکتے ہیں۔اگر کوئی بہن بھائی ہوتا تو یہ حال نہ ہوتا۔"
ساغر کا بچپن انتہائی نا مساعد حالات میں گزرا۔ ساغر نے حبیب حسن خاں سے گھر پہ ہی اردو زبان کی تعلیم حاصل کی۔ اسی دور میں ساغر میں شاعری کا جذبہ پروان چڑھا جس نے محمد اختر شاہ کو ساغر صدیقی بنا دیا۔ ساغر نے ابتدا میں ناصر حجازی تخلص  رکھا تھا مگر بعد میں ساغر صدیقی رکھ لیا۔ ساغر نے کلام پر اصلاح لینے کے لیے لطیف انور گورداسپوری مرحوم کا انتخاب کیا اور ان سے بہت فیض اٹھایا۔ساغر نے امرتسر میں کنگھیاں بنانے کا کام بھی کیا۔
ساغر کی اصل شہرت 1944ء میں ہوئی۔ اس سال امرتسر میں ایک بڑے پیمانے پر مشاعرہ قرار پایا۔ اس میں شرکت کے لیے لاہور کے بعض شاعر بھی مدعو تھے۔ ان میں ایک صاحب کو معلوم ہوا کہ یہ "لڑکا" (ساغر صدیقی) بھی شعر کہتا ہے۔ انہوں نے منتظمین سے کہہ کر اسے مشاعرے میں پڑھنے کا موقع دلوا دیا۔ ساغر کی آواز میں بلا کا سوز تھا اور وہ ترنم میں پڑھنے میں جواب نہیں رکھتا تھا۔ بس پھر کیا تھا، اس شب اس نے صحیح معنوں میں مشاعرہ لوٹ لیا۔
1947ء میں پاکستان بنا تو وہ امرتسر سے لاہور چلا گیا۔ یہاں دوستوں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ اس کا کلام مختلف پرچوں میں چھپنے لگا۔ سینما فلم بنانے والوں نے اسے گیتوں کی فرمائش کی اور اسے حیرت ناک کامیابی ہوئی۔ اس دور کی متعدد فلموں کے گیت ساغر کے لکھے ہوئے ہیں۔ اس زمانے میں اس کے سب سے بڑے سرپرست انور کمال پاشا (ابن حکیم احمد شجاع مرحوم) تھے۔ جو پاکستان میں فلم سازی کی صنعت کے بانیوں میں ہیں۔ انہوں نے اپنی بیشتر فلموں کے گانے ساغر سے لکھوائے اور یہ بہت مقبول ہوئے۔ساغر نے لکھا تھا کہ
"تقسیم کے بعدصرف شعر لکھتا ہوں، شعر پڑھتا ہوں، شعر کھاتا ہوں، شعر پیتا ہوں۔"
ساغر کی شاعری کے سلسلے میں ایک واقعہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ:
 لائل پور کاٹن مل میں ملک گیر طرحی مشاعرہ ہوتا تھا۔ 1958ء میں جگر مراد آبادی کی صدارت میں مشاعرہ ہوا۔ مصرع طرح تھا
سجدہ گاہ عاشقاں پر نقش پا ہوتا نہیں
مختلف شعراء کے بعد ساغر صدیقی نے اپنی یہ غزل سنائی

ایک وعدہ ہے کسی کا جو وفا ہوتا نہیں
ورنہ ان تاروں بھری راتوں میں کیا ہوتا نہیں
جی میں آتا ہے الٹ دیں انکے چہرے سے نقاب
حوصلہ کرتے ہیں لیکن حوصلہ ہوتا نہیں
شمع جس کی آبرو پر جان دے دے جھوم کر
وہ پتنگا جل تو جاتا ہے فنا ہوتا نہیں
اب تو مدت سے رہ و رسمِ نظارہ بند ہے
اب تو ان کا طُور پر بھی سامنا ہوتا نہیں
ہر شناور کو نہیں ملتا تلاطم سے خراج
ہر سفینے کا محافظ ناخدا ہوتا نہیں
ہر بھکاری پا نہیں سکتا مقامِ خواجگی
ہر کس و ناکس کو تیرا غم عطا ہوتا نہیں
ہائے یہ بیگانگی اپنی نہیں مجھ کو خبر
ہائے یہ عالم کہ تُو دل سے جُدا ہوتا نہیں
بارہا دیکھا ہے ساغرؔ رہگذارِ عشق میں
کارواں کے ساتھ اکثر رہنما ہوتا نہیں
یہ غزل سن کر جگر جھوم اٹھے اور حاضرین محفل نے خوب داد دی ۔ جگر مرادآبادی نے اپنی باری آنے پر کہا کہ میری غزل کی ضرورت نہیں حاصل مشاعرہ غزل ہو چکی اور اپنی غزل کو اسیٹج پر ہی پھاڑ دیا۔
ساغر صدیقی نے ہفت روزہ "تصویر" کی ادارت بھی کی۔
ایک اور واقعہ جو وکیپیڈیا سے لیا گیا ہے، پڑھنے اور ساغر کوخراجِ تحسین پیش کرنے کے قابل ہے۔
اکتوبر 1958ء میں پاکستان میں فوجی انقلاب میں محمد ایوب بر سر اقتدار آگئے اور تمام سیاسی پارٹیاں اور سیاست داں جن کی باہمی چپقلش اور رسہ کشی سے عوام تنگ آ چکے تھے۔ حرف غلط کی طرح فراموش کر دیے گئے۔ لوگ اس تبدیلی پر واقعی خوش تھے۔ ساغر نے اسی جذبے کا اظہار ایک نظم میں کیا ہے، اس میں ایک مصرع تھا:
کیا ہے صبر جو ہم نے، ہمیں ایوب ملا
یہ نظم جرنیل محمد ایوب کی نظر سے گزری یا گزاری گئی۔ اس کے بعد جب وہ لاہور آئے تو انہوں نے خواہش ظاہر کی کہ میں اس شاعر سے ملنا چاہتا ہوں جس نے یہ نظم لکھی تھی۔ اب کیا تھا! پولیس اور خفیہ پولیس اور نوکر شاہی کا پورا عملہ حرکت میں آگیا اور ساغر کی تلاش ہونے لگی۔ لیکن صبح سے شام تک کی پوری کوشش کے باوجود وہ ہاتھ ‍ نہ لگا۔ اس کا کوئی ٹھور ٹھکانہ تو تھا نہیں، جہاں سے وہ اسے پکڑ لاتے۔ پوچھ‍ گچھ‍ کرتے کرتے سر شام پولیس نے اسے پان والے کی دوکان کے سامنے کھڑے دیکھ‍ لیا۔ وہ پان والے سے کہہ رہا تھا کہ پان میں قوام ذرا ذیادہ ڈالنا۔ پولیس افسر کی باچھیں کھل گئیں کہ شکر ہے ظلّ سبحانی کے حکم کی تعمیل ہو گئی۔ انہوں نے قریب جا کر ساغر سے کہا کہ آپ کو حضور صدر مملکت نے یاد فرمایا ہے۔ ساغر نے کہا:
بابا ہم فقیروں کا صدر سے کیا کام! افسر نے اصرار کیا، ساغر نے انکار کی رٹ نہ چھوڑی۔ افسر بے چارا پریشان کرے تو کیا کیونکہ وہ ساغر کو گرفتار کرکے تو لے نہیں جا سکتا تھا کہ اس نے کوئی جرم نہیں کیا تھا اور اسے کوئی ایسی ہدایت بھی نہیں ملی تھی، جرنیل صاحب تو محض اس سے ملنے کے خواہشمند تھے اور ادھر یہ "پگلا شاعر" یہ عزت افزائی قبول کرنے کو تیار نہیں تھا۔ اب افسر نے جو مسلسل خوشامد سے کام لیا، تو ساغر نے زچ ہو کر اس سے کہا:
ارے صاحب، مجھے گورنر ہاؤس میں جانے کی ضرورت نہیں۔ وہ مجھے کیا دیں گے۔ دو سو چار سو، فقیروں کی قیمت اس سے ذیادہ ہے۔ جب وہ اس پر بھی نہ ٹلا تو ساغر نے گلوری کلے میں دبائی اور زمین پر پڑی سگرٹ کی خالی ڈبیہ اٹھا کر اسے کھولا۔ جس سے اس کا اندر کا حصہ نمایاں ہو گیا۔ اتنے میں یہ تماشا دیکھنے کو ارد گرد خاصی بھیڑ جمع ہو گئی تھی۔ ساغر نے کسی سے قلم مانگا اور اس کاغذ کے ٹکڑے پر یہ شعر لکھا:

جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی

اس دور کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے

(ساغر صدیقی بقلم خود)
اور وہ پولیس افسر کی طرف بڑھا کر کہا:
یہ صدر صاحب کو دے دینا، وہ سمجھ جائیں گے اور اپنی راہ چلا گیا۔
ساغر صدیقی نے بہت سنہری دور دیکھا تھا مگر پھر وہ آہستہ آہستہ نشے کی دلدل میں ایسے پھنسا کہ پھر باہر نہ نکل سکا اور دنیا نے اُسے فراموش کر دیا۔ ساغر اس لت میں کیسے پڑا، یہ ہمیں وکیپیڈیا کچھ اس طرح بتاتا ہے کہ:
1952ء کی بات ہے کہ وہ ایک ادبی ماہنامے کے دفتر میں بیٹھے تھے۔ انہوں نے سردرد اور اضمحلال کی شکایت کی۔ پاس ہی ایک اور شاعر دوست بھی بیٹھے۔ انہوں نے تعلق خاطر کا اظہار کیا اور اخلاص ہمدردی میں انہیں مارفیا کا ٹیکہ لگا دیا۔ سردرد اور اضمحلال تو دور ہو گیا لیکن اس معمولی واقعے نے ان کے جسم کے اندر نشّہ بازی کے تناور درخت کا بیج بو دیا۔ بدقسمتی سے ایک اور واقعے نے اس رجحان کو مزید تقویت دی۔
اس زمانے میں وہ انارکلی لاہور میں ایک دوست کے والد (جو پیشہ کے لحاظ سے ڈاکٹر تھے) مطب کی اوپر کی منزل میں رہتے تھے۔ اسی کمرے میں ان کے ساتھ‍ ایک دوست بھی مقیم تھے (اب نام کیا لکھوں) ان صاحب کو ہر طرح کے نشوں کی عادت تھی۔ ہوتی کو کون ٹال سکتا ہے۔ ان کی صحبت میں ساغر بھی رفتہ رفتہ اولا بھنگ اور شراب اور ان سے گزر کر افیون اور چرس کے عادی ہوگئے۔ اگر کوئی راہ راست سے بھٹک جائے اور توفیق ایزدی اس کی دستگیری نہ کرے، تو پھر اس کا تحت الثری سے ادھر کوئی ٹھکانہ نہیں رہتا۔
یہی ساغر کے ساتھ‍ ہوا اور افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ خود ان کے دوستوں میں سے بیشتر ان کے ساتھ‍ ظلم کیا۔ یہ لوگ انہیں چرس کی پڑیا اورمارفیا کے ٹیکے کی شیشیاں دیتے اور ان سے غزلیں اور گیت لے جاتے، اپنے نام سے پڑھتے اور چھپواتے اور بحیثیت شاعر اور گیت کار اپنی شہرت میں اضافہ کرتے۔ اس کے بعد اس نے رسائل اور جرائد کے دفتر اور فلموں کے اسٹوڈیو آنا جانا چھوڑ دیا۔ اس میں بھی کوئی مبالغہ نہیں کہ اداروں کے کرتا دھرتا اس کے کام کی اجرت کے دس روپے بھی اس وقت ادا نہیں کرتے تھے، جب وہ ان کے در دولت کی چوکھٹ پر دس سجدے نہ کرے۔ اس نے ساغر کے مزاج کی تلخی اور دنیا بیزاری اور ہر وقت "بے خود" رہنے کی خواہش میں اضافہ کیا اور بالکل آوارہ ہوگیا۔ نوبت بايں رسید کہ کہ کبھی وہ ننگ دھڑنگ ایک ہی میلی کچیلی چادر اوڑھے اور کبھی چیتھڑوں میں ملبوس، بال بکھرائے ننگے پاؤں۔۔۔۔ منہ میں بیڑی یا سگریٹلیے سڑکوں پر پھرتا رہتا اور رات کو نشے میں دھت مدہوش کہیں کسی سڑک کے کنارے کسی دوکان کے تھڑے یا تخت کے اوپر یا نیچے پڑا رہتا۔
اب اس کی یہ عادت ہو گئی کہ کہیں کوئی اچھے وقتوں کا دوست مل جاتا تو اس سے ایک چونی طلب کرتا۔ اس کی یہ چونی مانگنے کی عادت سب کو معلوم تھی چنانچہ بار بار ایسا ہوا کہ کسی دوست نے اسے سامنے سے آتے دیکھا اور فورا جیب سے چونّی نکال کر ہاتھ‍ میں لے لی۔ پاس پہنچے اور علیک سلیک کے بعد مصافحہ کرتے وقت چونی ساغر کے ہاتھ‍ میں چھوڑ دی۔ وہ باغ باغ ہو جاتا۔ یوں شام تک جو دس بیس روپے جمع ہو جاتے، وہ اس دن کے چرس اور مارفیا کے کام آتے۔ فاعتبروا یا اولی الابصار۔
جنوری1974ء میں اس پر فالج کا حملہ ہوا اس کا علاج بھی چرس اور مارفیا سے کیا گیا۔ فالج سے تو بہت حد تک نجات مل گئی، لیکن اس سے دایاں ہاتھ‍ ہمیشہ کے لیے بے کار ہو گیا۔ پھر کچھ‍ دن بعد منہ سے خون آنے لگا۔ اور یہ آخر تک دوسرے تیسرے جاری رہا۔ ان دنوں خوراک برائے نام تھی۔ جسم سوکھ‍ کر ہڈیوں کا ڈھانچہ رہ گیا تھا۔ سب کو معلوم تھا کہ اب وہ دن دور نہیں جب وہ کسی سے چونی نہیں مانگے گا۔ساغر صدیقی کے آخری ایام داتا دربار کے سامنے پائلٹ ہوٹل کے فٹ پاتھ پر گذرے۔اور ان کی وفات بھی اسی فٹ پاتھ پر ہوئی۔
ساغر کی تاریخَ وفات کے متعلق میں نے کچھ کتابوں میں 18 جولائی پڑھا ہے جبکہ وکیپیڈیا پہ 19 جولائی لکھا ہوا ہے۔  اگر کسی علم میں درست تاریخ ہو تو مطلع فرمائیں۔ بہرحال جولائی 1974ءصبح کے وقت اس کی لاش سڑک کے کنارے ملی اور دوستوں نے لے جا کر اسے میانی صاحب کے قبرستان میں دفن کر دیا۔
انا للہ وانا الیہ راجعون!
ساغر  کے شعری مجموعوں میں غمِ بہار، زہرِ آرزو، لوحِ جنوں، شبِ آگہی اور سبز گنبد شامل ہیں۔
ساغر صدیقی کہا کرتے تھے کہ "لاہور میں بہت قیمتی خزانے دفن ہیں مگر انہیں آسانی سے تلاش نہیں کیا سکتا ۔" اور بے شک ساغر صدیقی بھی انہی خزانوں میں سے ایک ہیں۔
ساغر صدیقی کی کچھ تصاویر جو گوگل سے لی گئی ہیں۔

یہ جو دیوانے سے دو چار نظر آتے ہیں

غزل


یہ جو دیوانے سے دو چار نظر آتے ہیں
ان میں کچھ صاحب اسرار نظر آتے ہیں
تیری محفل کا بھرم رکھتے ہیں سو جاتے ہیں
ورنہ یہ لوگ تو بیزار نظر آتے ہیں
دور تک کوئی ستارہ ہے نہ کوئی جگنو
مرگ امید کے آثار نظر آتے ہیں
میرے دامن میں شراروں کے سوا کچھ بھی نہیں
آپ پھولوں کے خریدار نظر آتے ہیں
کل جنہیں چھو نہیں سکتی تھی فرشتوں کی نظر
آج وہ رونق بازار نظر آتے ہیں
حشر میں کون گواہی مری دے گا ساغرؔ
سب تمہارے ہی طرفدار نظر آتے ہیں

از ساغرؔ صدیقی

ہے دعا یاد مگر حرف دعا یاد نہیں

غزل


ہے دعا یاد مگر حرف دعا یاد نہیں
میرے نغمات کو انداز نوا یاد نہیں
میں نے پلکوں سے در یار پہ دستک دی ہے
میں وہ سائل ہوں جسے کوئی صدا یاد نہیں
میں نے جن کے لیے راہوں میں بچھایا تھا لہو
ہم سے کہتے ہیں وہی عہد وفا یاد نہیں
کیسے بھر آئیں سر شام کسی کی آنکھیں
کیسے تھرائی چراغوں کی ضیا یاد نہیں
صرف دھندلائے ستاروں کی چمک دیکھی ہے
کب ہوا کون ہوا کس سے خفا یاد نہیں
زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں
آؤ اک سجدہ کریں عالم مدہوشی میں
لوگ کہتے ہیں کہ ساغرؔ کو خدا یاد نہیں

از ساغرؔ صدیقی

مسکراؤ بہار کے دن ہیں

غزل


مسکراؤ بہار کے دن ہیں
گل کھلاؤ بہار کے دن ہیں
دختران چمن کے قدموں پر
سر جھکاؤ بہار کے دن ہیں
مے نہیں ہے تو اشک غم ہی سہی
پی بھی جاؤ بہار کے دن ہیں
تم گئے رونق بہار گئی
تم نہ جاؤ بہار کے دن ہیں
ہاں کوئی واردات ساغر و مے
کچھ سناؤ بہار کے دن ہیں

از ساغرؔ صدیقی

متاع کوثر و زمزم کے پیمانے تری آنکھیں

غزل


متاع کوثر و زمزم کے پیمانے تری آنکھیں
فرشتوں کو بنا دیتی ہیں دیوانے تری آنکھیں
جہان رنگ و بو الجھا ہوا ہے ان کے ڈوروں میں
لگی ہیں کاکل تقدیر سلجھانے تری آنکھیں
اشاروں سے دلوں کو چھیڑ کر اقرار کرتی ہیں
اٹھاتی ہیں بہار نو کے نذرانے تری آنکھیں
وہ دیوانے زمام لالہ و گل تھام لیتے ہیں
جنہیں منسوب کر دیتی ہیں ویرانے تری آنکھیں
شگوفوں کو شراروں کا مچلتا روپ دیتی ہیں
حقیقت کو بنا دیتی ہیں افسانے تری آنکھیں

از ساغرؔ صدیقی

غم کے مجرم خوشی کے مجرم ہیں

غزل


غم کے مجرم خوشی کے مجرم ہیں
لوگ اب زندگی کے مجرم ہیں
اور کوئی گناہ یاد نہیں
سجدۂ بے خودی کے مجرم ہیں
استغاثہ ہے راہ و منزل کا
راہزن رہبری کے مجرم ہیں
مے کدے میں یہ شور کیسا ہے
بادہ کش بندگی کے مجرم ہیں
دشمنی آپ کی عنایت ہے
ہم فقط دوستی کے مجرم ہیں
ہم فقیروں کی صورتوں پہ نہ جا
خدمت آدمی کے مجرم ہیں
کچھ غزالان آگہی ساغرؔ
نغمہ و شاعری کے مجرم ہیں

از ساغرؔ صدیقی

چاندنی کو رسول کہتا ہوں

غزل


چاندنی کو رسول کہتا ہوں
بات کو با اصول کہتا ہوں
جگمگاتے ہوئے ستاروں کو
تیرے پاؤں کی دھول کہتا ہوں
جو چمن کی حیات کو ڈس لے
اس کلی کو ببول کہتا ہوں
اتفاقاً تمہارے ملنے کو
زندگی کا حصول کہتا ہوں
آپ کی سانولی سی مورت کو
ذوق یزداں کی بھول کہتا ہوں
جب میسر ہوں ساغرؔ و مینا
برق پاروں کو پھول کہتا ہوں

از ساغرؔ صدیقی

جھوم کے گاؤ! میں شرابی ہوں

غزل


جھوم کے گاؤ! میں شرابی ہوں
رقص فرماؤ! میں شرابی ہوں
ایک سجدہ! بہ نام مے خانہ
دوستو آؤ! میں شرابی ہوں
لوگ کہتے ہیں رات بیت چکی
مجھ کو سمجھاؤ! میں شرابی ہوں
آج ان ریشمی گھٹاؤں کو
یوں نہ بکھراؤ! میں شرابی ہوں
حادثے روز ہوتے رہتے ہیں
بھول بھی جاؤ! میں شرابی ہوں
مجھ پہ ظاہر ہے آپ کا باطن
منہ نہ کھلواؤ! میں شرابی ہوں

از ساغرؔ صدیقی

تری نظر کے اشاروں سے کھیل سکتا ہوں

غزل


تری نظر کے اشاروں سے کھیل سکتا ہوں
جگر فروز شراروں سے کھیل سکتا ہوں
تمہارے دامن رنگیں کا آسرا لے کر
چمن کے مست نظاروں سے کھیل سکتا ہوں
کسی کے عہد محبت کی یاد باقی ہے
بڑے حسین سہاروں سے کھیل سکتا ہوں
مقام ہوش و خرد انتقام وحشت ہے
جنوں کی راہ گزاروں سے کھیل سکتا ہوں
مجھے خزاں کے بگولے سلام کرتے ہیں
حیا فروش چناروں سے کھیل سکتا ہوں
شراب و شعر کے دریا میں ڈوب کر ساغرؔ
سرور و کیف کے دھاروں سے کھیل سکتا ہوں

از ساغرؔ صدیقی

تاروں سے میرا جام بھرو میں نشے میں ہوں

غزل


تاروں سے میرا جام بھرو میں نشے میں ہوں
اے ساکنان خلد سنو میں نشے میں ہوں
کچھ پھول کھل رہے ہیں سر شاخ مے کدہ
تم ہی ذرا یہ پھول چنو میں نشے میں ہوں
ٹھہرو ابھی تو صبح کا مارا ہے ضوفشاں
دیکھو مجھے فریب نہ دو میں نشے میں ہوں
نشہ تو موت ہے غم ہستی کی دھوپ میں
بکھرا کے زلف ساتھ چلو میں نشے میں ہوں
میلہ یوں ہی رہے یہ سر رہ گزار زیست
اب جام سامنے ہی رکھو میں نشے میں ہوں
پائل چھنک رہی ہے نگار خیال کی
کچھ اہتمام رقص کرو میں نشے میں ہوں
میں ڈگمگا رہا ہوں بیابان ہوش میں
میرے ابھی قریب رہو میں نشے میں ہوں
ہے صرف اک تبسم رنگیں بہت مجھے
ساغرؔ بدوش لالہ رخو میں نشے میں ہوں

از ساغرؔ صدیقی

ایک نغمہ اک تارا ایک غنچہ ایک جام

غزل


ایک نغمہ اک تارا ایک غنچہ ایک جام
اے غم دوراں غم دوراں تجھے میرا سلام
زلف آوارہ گریباں چاک گھبرائی نظر
ان دنوں یہ ہے جہاں میں زندگانی کا نظام
چند تارے ٹوٹ کر دامن میں میرے آ گرے
میں نے پوچھا تھا ستاروں سے ترے غم کا مقام
کہہ رہے ہیں چند بچھڑے رہرووں کے نقش پا
ہم کریں گے انقلاب جستجو کا اہتمام
پڑ گئیں پیراہن صبح چمن پر سلوٹیں
یاد آ کر رہ گئی ہے بے خودی کی ایک شام
تیری عصمت ہو کہ ہو میرے ہنر کی چاندنی
وقت کے بازار میں ہر چیز کے لگتے ہیں دام
ہم بنائیں گے یہاں ساغرؔ نئی تصویر شوق
ہم تخیل کے مجدد ہم تصور کے امام

از ساغرؔ صدیقی

چاک دامن کو جو دیکھا تو ملا عید کا چاند

غزل


چاک دامن کو جو دیکھا تو ملا عید کا چاند
اپنی تقدیر کہاں بھول گیا عید کا چاند
ان کے ابروئے خمیدہ کی طرح تیکھا ہے
اپنی آنکھوں میں بڑی دیر چھپا عید کا چاند
جانے کیوں آپ کے رخسار مہک اٹھتے ہیں
جب کبھی کان میں چپکے سے کہا عید کا چاند
دور ویران بسیرے میں دیا ہو جیسے
غم کی دیوار سے دیکھا تو لگا عید کا چاند
لے کے حالات کے صحراؤں میں آ جاتا ہے
آج بھی خلد کی رنگین فضا عید کا چاند
تلخیاں بڑھ گئیں جب زیست کے پیمانے میں
گھول کر درد کے ماروں نے پیا عید کا چاند
چشم تو وسعت افلاک میں کھوئی ساگر
دل نے اک اور جگہ ڈھونڈ لیا عید کا چاند

از ساغرؔ صدیقی

ہر مرحلۂ شوق سے لہرا کے گزر جا

غزل


ہر مرحلۂ شوق سے لہرا کے گزر جا
آثار تلاطم ہوں تو بل کھا کے گزر جا
بہکی ہوئی مخمور گھٹاؤں کی صدا سن
فردوس کی تدبیر کو بہلا کے گزر جا
مایوس ہیں احساس سے الجھی ہوئی راہیں
پائل دل مجبور کی چھنکا کے گزر جا
یزدان و اہرمن کی حکایات کے بدلے
انساں کی روایات کو دہرا کے گزر جا
کہتی ہیں تجھے میکدۂ وقت کی راہیں
بگڑی ہوئی تقدیر کو سلجھا کے گزر جا
بجھتی ہی نہیں تشنگیٔ دل کسی صورت
اے ابر کرم آگ ہی برسا کے گزر جا
کانٹے جو لگیں ہاتھ تو کچھ غم نہیں ساغرؔ
کلیوں کو ہر اک گام پہ بکھرا کے گزر جا

از ساغرؔ صدیقی

میں تلخیٔ حیات سے گھبرا کے پی گیا

غزل


میں تلخیٔ حیات سے گھبرا کے پی گیا
غم کی سیاہ رات سے گھبرا کے پی گیا
اتنی دقیق شے کوئی کیسے سمجھ سکے
یزداں کے واقعات سے گھبرا کے پی گیا
چھلکے ہوئے تھے جام پریشاں تھی زلف یار
کچھ ایسے حادثات سے گھبرا کے پی گیا
میں آدمی ہوں کوئی فرشتہ نہیں حضور
میں آج اپنی ذات سے گھبرا کے پی گیا
دنیائے حادثات ہے اک دردناک گیت
دنیائے حادثات سے گھبرا کے پی گیا
کانٹے تو خیر کانٹے ہیں اس کا گلہ ہی کیا
پھولوں کی واردات سے گھبرا کے پی گیا
ساغرؔ وہ کہہ رہے تھے کہ پی لیجیے حضور
ان کی گزارشات سے گھبرا کے پی گیا

از ساغرؔ صدیقی

محفلیں لٹ گئیں جذبات نے دم توڑ دیا

غزل


محفلیں لٹ گئیں جذبات نے دم توڑ دیا
ساز خاموش ہیں نغمات نے دم توڑ دیا
ہر مسرت غم دیروز کا عنوان بنی
وقت کی گود میں لمحات نے دم توڑ دیا
ان گنت محفلیں محروم چراغاں ہیں ابھی
کون کہتا ہے کہ ظلمات نے دم توڑ دیا
آج پھر بجھ گئے جل جل کے امیدوں کے چراغ
آج پھر تاروں بھری رات نے دم توڑ دیا
جن سے افسانۂ ہستی میں تسلسل تھا کبھی
ان محبت کی روایات نے دم توڑ دیا
جھلملاتے ہوئے اشکوں کی لڑی ٹوٹ گئی
جگمگاتی ہوئی برسات نے دم توڑ دیا
ہائے آداب محبت کے تقاضے ساغرؔ
لب ہلے اور شکایات نے دم توڑ دیا

از ساغرؔ صدیقی

لا اک خم شراب کہ موسم خراب ہے

غزل


لا اک خم شراب کہ موسم خراب ہے
کر کوئی انقلاب کہ موسم خراب ہے
زلفوں کو بے خودی کی ردا میں لپیٹ دے
ساقی پئے شباب کہ موسم خراب ہے
جام و سبو کے ہوش ٹھکانے نہیں رہے
مطرب اٹھا رباب کہ موسم خراب ہے
غنچوں کو اعتبار طلوع چمن نہیں
رخ سے الٹ نقاب کہ موسم خراب ہے
اے جاں! کوئی تبسم رنگیں کی واردات
پھیکا ہے ماہتاب کہ موسم خراب ہے

از ساغرؔ صدیقی

تیری نظر کا رنگ بہاروں نے لے لیا

غزل


تیری نظر کا رنگ بہاروں نے لے لیا
افسردگی کا روپ ترانوں نے لے لیا
جس کو بھری بہار میں غنچے نہ کہہ سکے
وہ واقعہ بھی میرے فسانوں نے لے لیا
شاید ملے گا قریۂ مہتاب میں سکوں
اہل خرد کو ایسے گمانوں نے لے لیا
یزداں سے بچ رہا تھا جلالت کا ایک لفظ
اس کو حرم کے شوخ بیانوں نے لے لیا
تیری ادا سے ہو نہ سکا جس کا فیصلہ
وہ زندگی کا راز نشانوں نے لے لیا
افسانۂ حیات کی تکمیل ہو گئی
اپنوں نے لے لیا کہ بیگانوں نے لے لیا
بھولی نہیں وہ قوس قزح کی سی صورتیں
ساغرؔ تمہیں تو مست دھیانوں نے لے لیا

از ساغرؔ صدیقی

خطاوار مروت ہو نہ مرہون کرم ہو جا

غزل

خطاوار مروت ہو نہ مرہون کرم ہو جا
مسرت سر جھکائے گی پرستار الم ہو جا
انہی بے ربط خوابوں سے کوئی تعبیر نکلے گی
انہی الجھی ہوئی راہوں پہ میرا ہم قدم ہو جا
کسی زردار سے جنس تبسم مانگنے والے
کسی بیکس کے لاشے پر شریک چشم نم ہو جا
کسی دن ان اندھیروں میں چراغاں ہو ہی جائے گا
جلا کر داغ دل کوئی ضیائے شام غم ہو جا
تجھے سلجھائے گا اب انقلاب وقت کا شانہ
تقاضائے جنوں ہے گیسوئے دوراں کا خم ہو جا
تجسس مرکز تقدیر کا قائل نہیں ہوتا
شعور بندگی! بیگانۂ دیر و حرم ہو جا
یہ منزل اور گرد کارواں ساغرؔ کہاں اپنے
سمٹ کر رہ گزار وقت پر نقش قدم ہو جا

از ساغرؔ صدیقی

کلیوں کی مہک ہوتا تاروں کی ضیا ہوتا

غزل

کلیوں کی مہک ہوتا تاروں کی ضیا ہوتا
میں بھی ترے گلشن میں پھولوں کا خدا ہوتا
ہر چیز زمانے کی آئینہ دل ہوتی
خاموش محبت کا اتنا تو صلہ ہوتا
تم حال پریشاں کی پرسش کے لیے آتے
صحرائے تمنا میں میلہ سا لگا ہوتا
ہر گام پہ کام آتے زلفوں کے تری سائے
یہ قافلۂ ہستی بے راہنما ہوتا
احساس کی ڈالی پر اک پھول مہکتا ہے
زلفوں کے لیے تم نے اک روز چنا ہوتا

از ساغرؔ صدیقی

اے حسن لالہ فام! ذرا آنکھ تو ملا

غزل


اے حسن لالہ فام! ذرا آنکھ تو ملا
خالی پڑے ہیں جام! ذرا آنکھ تو ملا
کہتے ہیں آنکھ آنکھ سے ملنا ہے بندگی
دنیا کے چھوڑ کام! ذرا آنکھ تو ملا
کیا وہ نہ آج آئیں گے تاروں کے ساتھ ساتھ
تنہائیوں کی شام! ذرا آنکھ تو ملا
یہ جام یہ سبو یہ تصور کی چاندنی
ساقی کہاں مدام! ذرا آنکھ تو ملا
ساقی مجھے بھی چاہئے اک جام آرزو
کتنے لگیں گے دام! ذرا آنکھ تو ملا
پامال ہو نہ جائے ستاروں کی آبرو
اے میرے خوش خرام! ذرا آنکھ تو ملا
ہیں راہ کہکشاں میں ازل سے کھڑے ہوئے
ساغرؔ ترے غلام! ذرا آنکھ تو ملا

از ساغرؔ صدیقی

اس درجہ عشق موجب رسوائی بن گیا

غزل

اس درجہ عشق موجب رسوائی بن گیا
میں آپ اپنے گھر کا تماشائی بن گیا
دیر و حرم کی راہ سے دل بچ گیا مگر
تیری گلی کے موڑ پہ سودائی بن گیا
بزم وفا میں آپ سے اک پل کا سامنا
یاد آ گیا تو عہد شناسائی بن گیا
بے ساختہ بکھر گئی جلووں کی کائنات
آئینہ ٹوٹ کر تری انگڑائی بن گیا
دیکھی جو رقص کرتی ہوئی موج زندگی
میرا خیال وقت کی شہنائی بن گیا

از ساغرؔ صدیقی

اے دل بے قرار چپ ہو جا

غزل 

 
اے دل بے قرار چپ ہو جا
جا چکی ہے بہار چپ ہو جا
اب نہ آئیں گے روٹھنے والے
دیدۂ اشک بار چپ ہو جا
جا چکا کاروان لالہ و گل
اڑ رہا ہے غبار چپ ہو جا
چھوٹ جاتی ہے پھول سے خوشبو
روٹھ جاتے ہیں یار چپ ہو جا
ہم فقیروں کا اس زمانے میں
کون ہے غم گسار چپ ہو جا
حادثوں کی نہ آنکھ کھل جائے
حسرت سوگوار چپ ہو جا
گیت کی ضرب سے بھی اے ساغرؔ
ٹوٹ جاتے ہیں تار چپ ہو جا
 

از ساغرؔ صدیقی

ہے تقدیسِ شمس و قمر، سبز گُنبد

نعت رسول مقبولﷺ


ہے تقدیسِ شمس و قمر، سبز گُنبد
متاع قرار نظر، سبز گُنبد
جلالِ خُدائے سمٰوٰات کہیے
کمال جہانِ بشر، سبز گُنبد
نگارانِ ہستی! چلو سُوئے بطحا
ہے تسکینِ قلب و جِگر، سبز گُنبد
در مصطفائیؐ کی سطوت نہ پُوچھو
جُھکاتا ہے شاہوں کے سر، سبز گُنبد
برستے ہیں راحت کے اسرار ساغرؔ
ہے ظُلمت میں فردِ سَحر، سبز گنبد

ساغرؔ صدیقی

مائلِ جور سب خدائی ہے

نعت رسول مقبول



مائلِ جور سب خدائی ہے
یا رسولِؐ خدا! دُہائی ہے
اُنؐ کے قدموں پہ جھکنے والوں نے
دولتِ دو جہان پائی ہے
ایک بَل گیسوئے محمدؐ کا
حاصلِ وصفِ کبریائی ہے
جُھوم اُٹھیں گھٹائیں رحمت کی
پیارے آقاؐ کی یاد آئی ہے
پِھر تخیّل میں ہے درِ اقدس
پِھر چمن میں بہار آئی ہے
عرشِ اعظم پہ جس کا چرچا ہے
آپؐ کی شانِ مُصطفائیؐ ہے
اب نہیں دل کو کوئی غم ساغرؔ
غمِ احمدؐ سے آشنائی ہے

ساغرؔ صدیقی

یہ کہتی ہیں فضائیں، زندگی دو چار دن کی ہے

 نعت رسول مقبولﷺ





یہ کہتی ہیں فضائیں، زندگی دو چار دن کی ہے
مدینہ دیکھ آئیں، زندگی دو چار دن کی ہے
سنہری جالیوں کو چُوم کر کچھ عرض کرنا ہے
مچلتی ہیں دُعائیں، زندگی دو چار دن کی ہے
غمِ انساں کی اِک صُورت عبادت خیز ہوتی ہے
کِسی کے کام آئیں، زندگی دوچار دن کی ہے
وہ راہیں ثبت ہیں جن پر نشاں پائے محمدؐ کے
انہیں منزل بنائیں، زندگی دو چار دن کی ہے
غمِ دنیا، غمِ عقبیٰ، یہ سب جُھوٹے سہارے ہیں
کِسے اپنا بنائیں، زندگی دو چار دن کی ہے
بیادِ کربلا ساغرؔ! سدا برسیں ان آنکھوں سے
یہ رحمت کی گھٹائیں، زندگی دو چار دن کی ہے

ساغرؔ صدیقی

محمدؐ باعثِ حُسن جہاں، ایمان ہے میرا

نعت رسول مقبولﷺ



محمدؐ باعثِ حُسن جہاں، ایمان ہے میرا
محمدؐ حاصلِ کون و مکاں، ایمان ہے میرا
محمدؐ اوّل و آخر، محمدؐ ظاہر و باطن
محمدؐ ہیں بہرصورت عیاں، ایمان ہے میرا
شرف اِک کملی والے نے جنہیں بخشا ہے قدموں میں
وہ صحرا بن گئے ہیں گُلستاں، ایمان ہے میرا
محبت ہے جسے غارِ حرا میں رونے والے سے
وہ انساں ہے خدا کا رازداں، ایمان ہے میرا
معطّر کر گئے ساغرؔ فضائے گُلشنِ ہستی
نبیؐ کے گیسُوئے عنبرفشاں، ایمان ہے میرا

ساغرؔ صدیقی

جب بھی نعتِ حضُورؐ کہتا ہوں

نعت رسول مقبول ﷺ



جب بھی نعتِ حضُورؐ کہتا ہوں
ذرّے ذرّے کو طُور کہتا ہوں
شامِ بطحا کی زَرفشانی کو
مطلعِ صبح نُور کہتا ہوں
بوریا جو تیریؐ عنایت ہے
اس کو تخت سمُور کہتا ہوں
رِند اور مدحتِ نبیؐ یارو
شانِ ربِّ غفُور کہتا ہوں
تشنگی اور یاد کربل کو
جَامِ کیف و سرُور کہتا ہُوں
ایک اُمّی نبیؐ کو اے ساغرؔ
تاجدارِ شعُور کہتا ہوں

ساغرؔ صدیقی

سرمایۂ حیات ہے سِیرت رسولؐ کی

نعت رسول مقبول ﷺ



سرمایۂ حیات ہے سِیرت رسولؐ کی
اسرارِ کائنات ہے سِیرت رسولؐ کی
پُھولوں میں ہے ظہُور ستاروں میں نُور ہے
ذاتِ خُدا کی بات ہے، سِیرت رسولؐ کی
بنجر دِلوں کو آپؐ نے سیراب کر دیا
اِک چشمۂ صفات ہے سِیرت رسولؐ کی
چشمِ کلیم، ایک تجلّی میں بِک گئی
جلووں کی واردات ہے سیرت رسولؐ کی
جور و جفا کے واسطے برقِ ستم سہے
دُنیائے التفات ہے سیرت رسولؐ کی
تصویر زندگی کو تکلّم عطا کیا
حُسنِ تصّورات ہے سیرت رسولؐ کی
ساغرؔ سرور و کیف کے ساغر چھلک اُٹھے
صبحِ تجلّیات ہے سیرت رسولؐ کی

ساغرؔ صدیقی

نہ ہوتا در محمدؐ کا تو دیوانے کہاں جاتے

نعت رسول مقبول



نہ ہوتا در محمدؐ کا تو دیوانے کہاں جاتے
خدا سے اپنے دل کی بات منوانے کہاں جاتے
جنہیں عشقِ محمدؐ نے کیا ادراک سے بالا
حقیقت اِن تمنّاؤں کی سمجھانے کہاں جاتے
خدا کا شُکر ہے یہ، حجرِ اسود تک رسائی ہے
جنہیں کعبے سے نِسبت ہے وہ بُتخانے کہاں جاتے
اگر آتی نہ خوشبوئے مدینہ آنکھوں سے
جو مرتے ہیں نہ جلتے ہیں وہ پروانے کہاں جاتے
سِمٹ آئے میری آنکھوں میں حُسنِ زندگی بن کر
شرابِ درد سے مخمور نذرانے کہاں جاتے
چلو اچھا ہوا ہے نعتِ ساغرؔ کام آئی
غلامانِ نبیؐ محشر میں پہچانے کہاں جاتے

ساغرؔ صدیقی

ہمیں جو یاد مدینے کا لالہ زار آیا

نعت رسول مقبول ﷺ




ہمیں جو یاد مدینے کا لالہ زار آیا
تصوّرات کی دُنیا پہ اِک نکھار آیا
کبھی جو گُنبدِ خِضرا کی یاد آئی ہے
بڑا سکُون مِلا ہے، بڑا قرار آیا
یقین کر کہ محمدؐ کے آستانے پر
جو بدنصیب گیا ہے وہ کامگار آیا
ہزار شمس و قمر راہِ شوق سے گُزرے
خیالِ حُسنِ محمدؐ جو بار بار آیا
عرب کے چاند نے صحرا بسا دئیے ساغرؔ
وہ ساتھ لے کے تجلّی کا اِک دیار آیا

ساغرؔ صدیقی

لبوں پہ جِس کے محمدؐ کا نام رہتا ہے

نعت رسول مقبولﷺ



لبوں پہ جِس کے محمدؐ کا نام رہتا ہے
وہ راہِ خُلد پہ محوِ خرام رہتا ہے
جو سَر جُھکائے محمدؐ کے آستانے پر
زمانہ اُس کا ہمیشہ غُلام رہتا ہے
ہمیں نہ چھیڑ کہ وارفتگانِ بطحا ہیں
ہمیں تو شوقِ مدینہ، مدام رہتا ہے
وہ دو جہاں کے اَمیں ہیں، اُنہی کے ہاتھوں میں
سپُرد کون و مکاں کا نظام رہتا ہے
جو غمگُسار ہے نادار اور غریبوں کا
وہ قُدسیوں میں بھی عالی مقام رہتا ہے
لگن ہے آلِ مدینہ کی جس کے سِینے میں
وہ زندگی میں بہت شادکام رہتا ہے
ہمیں ضرورتِ آبِ بقا نہیں ساغرؔ
ہمارے سامنے کوثر کا جام رہتا ہے

ساغرؔ صدیقی

جس طرف چشمِ محمدؐ کے اِشارے ہو گئے

  نعت رسول مقبولﷺ



جس طرف چشمِ محمدؐ کے اِشارے ہو گئے
جتنے ذرّے سامنے آئے، ستارے ہو گئے
جب کبھی عِشق محمدؐ کی عنایت ہو گئی
میرے آنسو کوثر و زمزم کے دھارے ہو گئے
موجۂ طوفاں میں جب نام محمدؐ لے لیا
ڈُوبتی کشتی کے تنکے ہی سہارے ہو گئے
یا محمدؐ! آپؐ کی نظروں کا یہ اعجاز ہے
جس طرف اُٹھیں نگاہیں، سب تمہارےؐ ہو گئے
میں ہُوں اور یادِ مدینہ، اور ہیں تنہائیاں
اپنے بیگانے سبھی مُجھ سے کنارے ہو گئے
اپنی کملی کا ذرا سایہ عنایت ہو مُجھے
دل کے دُشمن، یا محمدؐ دل سے پیارے ہو گئے
ڈُوبنے والوں جب نام محمدؐ لے لیا
حلقۂ طوفان کو حاصل کنارے ہو گئے
اُن کی نظروں میں یقیناً باغِ جنّت کچھ نہیں
جِس کی نظروں کو مدینے کے نظارے ہو گئے
چند لمحے آستانِ پاک پر گُزرے ہیں جو
وہ ہماری زندگی کے سہارے ہو گئے
سبز گنبد کے لیے اشعارِ ساغرؔ، مرحبا
جگمگا کر زندگی کے ماہ پارے ہو گئے

ساغرؔ صدیقی