Friday, 21 July 2017

غم کے مجرم خوشی کے مجرم ہیں

غزل


غم کے مجرم خوشی کے مجرم ہیں
لوگ اب زندگی کے مجرم ہیں
اور کوئی گناہ یاد نہیں
سجدۂ بے خودی کے مجرم ہیں
استغاثہ ہے راہ و منزل کا
راہزن رہبری کے مجرم ہیں
مے کدے میں یہ شور کیسا ہے
بادہ کش بندگی کے مجرم ہیں
دشمنی آپ کی عنایت ہے
ہم فقط دوستی کے مجرم ہیں
ہم فقیروں کی صورتوں پہ نہ جا
خدمت آدمی کے مجرم ہیں
کچھ غزالان آگہی ساغرؔ
نغمہ و شاعری کے مجرم ہیں

از ساغرؔ صدیقی

0 comments:

Post a Comment